پاکستانی اداکارہ مہوش حیات کو رواں سال تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا اور اب انہیں ناروے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ نے اوسلو میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا اور اس موقع پر ان کی تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

انہوں نے کہا 'فلمی صنعت میں ہم بہت زیادہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے ہیں، سنیما بہت طاقتور ہوتا ہے اور یہ لوگوں کی ذہنیت، رویے بدل ستکا ہے، میرا دل سے ماننا ہے کہ ہولی وڈ فلمیں اور پروگرامز میرے ملک کی تضحیک کرتے ہیں اور ہمیں پسماندہ دہشتگرد کے روپ میں دکھاتے ہیں، جس سے مغرب کے ذہن متاثر ہوتا ہے، یہ پاکستان کے بارے میں لوگ کی رائے پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں'۔

انہوں نے ایسے چند شوز اور فلموں کے نام بھی بتائے جیسے ہوم لینڈ، زیرو ڈارک تھرٹی اور دی برنک۔

انہوں نے مزید کہا 'میرے ملک کا ایسا تصویر تخلیق کیا گیا جو میں تو کسی صورت شناخت نہیں کرسکتی، یہ فلمیں اور دیگر مواد مل کر اسلاموفوبیا کو اوپر لے جارہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ بولی وڈ بھی یہی کام کررہا ہے۔

مہوش حیات نے کہا 'ہمارے پڑوس میں دنیا کی چند بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک موجود ہے اور ایسے وقت میں جب ہمیں اس طاقت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، وہ کیا کررہے ہیں؟ وہ لاتعداد فلموں میں پاکستانیوں کو ولن دکھارہے ہیں'۔

ان کے بقول 'میں سمجھتی ہوں کہ ہماری تاریخ، پارورش اور خطے کی سیاست میں غیرجانبدار رہنا مشکل ہے کیونکہ ایسا کرنے پر محب وطن نہیں سمجھا جاتا، مگر انہیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کیا زیادہ اہم کیا ہے، قوم پرستی کا فروغ یا پرامن مستقبل'۔

مہوش حیات کے مطابق بولی وڈ کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اب تک کیا نقصان پہنچا چکا ہے 'میں ان سے زیادہ مثبت نمائندگی کا مطالبہ نہیں کرتی مگر کیا وہ توازن بھی پیدا نہیں کرسکتے؟ دہشتگردی اور مظلوم عورت سے ہٹ کر بھی ہامرے پاس بہت کچھ ہے، تو اس سمت کی جانب آگے بڑھیں'۔

انہوں نے لولی وڈ کے حوالے سے بھی مشورہ دیا کہ ایسے فلمیں تیار کی جانی چاہیے جو پاکستان کے بارے میں ہو، صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں، جن کو عالمی ناظرین کو دکھا کر بتایا جائے کہ ہم بطور قوم کیسے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں