چیف الیکشن کمشنر کا صدر مملکت کے مقرر کردہ اراکین سے حلف لینے سے انکار

اپ ڈیٹ 24 اگست 2019
چیف الیکشن کمشنر کے مطابق نئے اراکین کی تقرری میں آئین کی خلاف ورزی کی گئی— فوٹو بشکریہ ای سی پی
چیف الیکشن کمشنر کے مطابق نئے اراکین کی تقرری میں آئین کی خلاف ورزی کی گئی— فوٹو بشکریہ ای سی پی

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے صدر عارف علوی کی جانب سے تقرر کردہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے 2 اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خالد محمود صدیقی اور منیر احمد خان کو بالترتیب سندھ اور بلوچستان کے الیکشن کمیشن کا رکن تعینات کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ کے باعث الیکشن کمیشن کا کام متاثر

تاہم ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے ان دونوں اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا اور اس حوالے سے وزارت پارلیمانی امور کو بھی آگاہ کردیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ان 2 اراکین کی تعیناتی کو آئین میں اراکین کی تقرری کے لیے درج آرٹیکل 213 اور 214 کی خلاف ورزی قرار دیا۔

دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے آئین کی خلاف ورزی کے عمل کو روک دیا، ان 2 اراکین سے حلف نہ لینے کے عمل کی آئین میں گنجائش موجود ہے، لہٰذا اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ برقرار رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ضمنی الیکشن ثابت کردے گا الیکشن کمیشن ہے یاسلیکشن کمیشن'

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے اراکین عبدالغفار سومرو اور جسٹس (ر) شکیل بلوچ رواں سال جنوری میں ریٹائر ہو گئے تھے اور قانون کے تحت ان 2 عہدوں کے لیے جگہ کو 45 دنوں میں پُر کرنا ہوتا ہے۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے درمیان اختلاف کے سبب ان 2 عہدوں پر تقرری کی مدت مارچ میں گزر گئی تھی، جس کے بعد عمران خان نے ان عہدوں کے لیے 3، 3 نام شہباز شریف کو بھیج دیے تھے۔

اس سلسلے میں نامزدگیوں پر بحث اور فہرست میں تبدیلی کے بعد 14 جون کو اس معاملے پر پارلیمانی پینل کا اجلاس ہوا تھا، جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حتمی فہرست پر تبادلہ کیا گیا۔

بعدازاں 19جون کو ایک اور اجلاس طلب کیا گیا تاکہ دونوں صوبوں کے الیکشن کمیشن کے اراکین کے نام کا فیصلہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں: ’وزیر اعظم مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن اراکین کا انتخاب چاہتے ہیں‘

البتہ اس معاملے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا اور ڈیڈ لاک برقرار رہا تھا، اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی سندھ میں اپنی پسند کا امیدوار لانے پر بضد تھے جبکہ ایک دوسرے کو بلوچستان کے امیدوار کے انتخاب کا حق دینے پر آمادہ تھے۔

یہاں پریشان کن امر یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کی یکساں نمائندگی کی صورت میں مزید فیصلہ کرنے کے لیے آئین میں راستہ نہ ہونے پر پہلے ہی دونوں فریقین سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں