جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ہفتے سے مقدمات کی سماعت کریں گے

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2019
سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کا آغاز آئندہ ہفتے ہونے والا ہے جس میں 4 بینچز زیر التوا کیسز کی سماعت کریں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کا آغاز آئندہ ہفتے ہونے والا ہے جس میں 4 بینچز زیر التوا کیسز کی سماعت کریں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ہفتے 11 ستمبر کو عدالت عظمیٰ کے نئے عدالتی سال برائے 20-2019 کا آغاز ہونے پر مقدمات کی سماعت شروع کردیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بینچ کی سربراہی کریں گے جس میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس اعجازالحسن بھی شامل ہوں گے۔

برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام جائیدادوں پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع ہونے کے بعد انہوں نے کسی بینچ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'ریفرنس کا سامنا کرنے والے ججز کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے'

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کا آغاز آئندہ ہفتے ہونے والا ہے جس میں 4 بینچز زیر التوا کیسز کی سماعت کریں گے۔

نئے عدالتی سال کا تصور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پیش کیا تھا جس میں عدالتی سال کے آغاز میں تقریب کا آغاز کیا جاتا ہے اور چیف جسٹس آنے والے سال کے لیے ترجیحات بتاتے ہیں۔

نئے عدالتی سال کے پہلے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ خود کریں گے جبکہ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کیلئے بار کونسل کی درخواست

دوسرے بینچ میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس منیب اختر جبکہ تیسرے بینچ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی محمد امین احمد اور چوتھے بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز کے خلاف دوسرا ریفرنس مسترد کرچکی ہے تاہم صدارتی ریفرنس اب بھی زیِر التوا ہے جس کے لیے مذکورہ جج کو اظہاِر وجوہ کا نوٹس بھی بھیجا جاچکا ہے۔

قبل ازیں 7 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں اپنے خلاف ریفرنس کو چیلنج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی جس میں ریفرنس کو بد نیتی پر مشتمل قرار دیا گیا تھا۔


یہ خبر 5 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں