تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ معیاری اسکول و کالج میں تعلیم حاصل کرے تاکہ بعدازاں پروفیشنل تعلیم کا آغاز کرتے وقت کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین تعلیم کے لیے ہائی اسٹینڈرڈ اور بھاری فیسوں والے تعلیمی ادارے ضروری ہیں۔

زیادہ مالی وسائل رکھنے والے والدین اس سلسلے میں اپنے بچوں کے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھے بغیر بچوں کو انہی تعلیمی اداروں میں داخل کرانے پر بضد ہیں جن کی فیسیں بھاری ہیں، چاہے وہاں تعلیم کے نام پر محض کتابیں رٹائی جائیں، اساتذہ کی ذمہ داری صرف سلیبس کور کروانا ہو اور بچوں کو کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع نہ ملے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ایک اور چلن عام ہوچلا ہے کہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز میں میرٹ نہ ہونے یا داخلہ ٹیسٹ پاس نہ کرنے کی صورت میں والدین بچوں کو ان کی صلاحیتوں یا رجحان کے مطابق کسی اور ادارے میں داخل کرانے کے بجائے بھاری رشوت دے کر ایڈمیشن کرواتے ہیں اور بعد ازاں پاس کروانے یا اچھے جی پی اے کے لیے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔

ایسا کرتے وقت والدین یکسر بھول جاتے ہیں کہ تعلیم کا اصل مقصد محض ڈگری اور مستقبل میں اچھی ملازمت کا حصول ہی نہیں ہوتا بلکہ تعلیم کا بنیادی مقصد بچے میں شعور و احساس کی بیداری اور اسے معاشرے کا ایک فعال اور ذمہ دار حصہ بنانا بھی ہوتا ہے، ہمارے تعلیمی نظام کے نقائص کے علاوہ والدین کی یہ غلط سوچ ہی ہے جس کے باعث ہمارے تعلیمی اداروں سے محض ڈگری ہولڈرز نکل رہے ہیں جن میں معاشرے اور ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا اور نئی نسل احساسات و جذبات اور دوسروں کی مدد کے جذبے سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔

موجودہ حالات کو سدھارنے کے لیے جہاں ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کی اشد ضرورت ہے وہیں والدین کے لیے بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو ایک کامیاب اور اچھا انسان بنانے کے لیے اعلٰی تعلیمی اداروں، بھاری فیسوں اور کوچنگ سینٹرز پر انحصار کرنے کے بجائے خود عملی اقدامات کے ذریعے ان کی اچھی تربیت اور اصلاح کا آغاز کریں، اس مقصد کے لیے مندرجہ ذیل نکات والدین کی راہ نمائی کر سکتے ہیں۔

1۔بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو جلا دینا:

ہمارے ہاں زیادہ تر والدین بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر یا اکاؤٹینٹ بنانے کے خواب دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان پروفیشنز کے ذریعے وہ اچھا کما کر مالی مسائل سے آزاد ہو جائیں گے، مگر اس کے برعکس ان کے بچے آرٹس، فلکیات، گرافکس یا کمپیوٹر وغیرہ جیسے شعبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی والدین بچوں کی ایسے کاموں کی جانب اکسائیں یا کرنے کی اجازت دیں جن سے ان کی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آسکیں اور مستقبل میں پروفیشن کے انتخاب کے وقت والدین پوری طرح تیار ہو چکے ہوں کہ ان کا بچہ شروع ہی سے کسی خاص مضمون یا شعبے کے طرف رجحان رکھتا ہے، یہ بات مشاہدے میں آچکی ہے کہ عموماََ بچے اپنی پسند کے مضامین میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کے بعد والدین کو ان کے پروفیشنل داخلوں میں رشوت وغیرہ جیسے اوچھے ہتھکنڈوں کی ضرورت ہر گز نہیں رہے گی۔

2۔بچوں کو آزادی دیں:

عموماََ والدین اور ان میں بھی خصوصاََ ماؤں کو یہ پریشانی لگی رہتی ہے کہ بچہ باہر جا کر نا جانے کس طرح کی صحبت میں بیٹھے گا، آج کل امن و امان کی خراب حالت اور بڑھتے ہوئے جرائم کے باعث زیادہ تر والدین بچوں کو باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں اور اس وجہ سے بچوں کا زیادہ تر وقت آن سکرین گزرتا ہے جو نا صرف ان کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے ان کی خود اعتمادی پر بھی برا اثر پڑتا ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنی حفاظت میں مخصوص اوقات میں باہر لیکر جائیں اور آؤٹ ڈور کھیلوں میں ان کی حوصلہ افزائی کریں، اگر وہ پڑھائی میں کم نمبر لاتے ہیں تو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے اس کی اصل وجہ تلاش کریں، اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ کم از کم انہوں نے کوشش ضرور کی تھی، یاد رکھئیے، ناکامیاں ہی انسان کو گر کر از خود اٹھنا اور اپنی اصلاح کر کے آگے بڑھنا سکھاتی ہیں، آئن سٹائن سے سٹیفن ہاکنگ تک کوئی نامور ذہین شخصیت ایسی نہیں گزری جسے ابتدا ہی سے ناکامیوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، اگر آپ کا بچہ کسی طرح کی جسمانی کمی یا دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہے تو مناسب اور بر وقت علاج کے علاوہ اسے از خود ایسے کاموں پر مائل کیجیئے جنہیں عام طور پر وہ کرنے سے کتراتا یا ڈرتا ہے تاکہ اس کے اندر خوف کم ہو اور خود اعتمادی بحال ہو جائے۔

3۔ بچوں میں لچک دار رویوں کو پروان چڑھائیے:

آج کل زیادہ تر والدین کو اپنے بچوں سے یہی شکایت رہتی ہے بچے ان کی بات نہیں مانتے اور اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں، ایسا کہتے ہوئے وہ ان عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے جن کی وجہ سے بچے ضدی اور خود سر بننے ہیں، بچے عموماََ رویوں میں ماں باپ یا گھر کے دیگر افراد کا مشاہدہ کرتے ہیں، اگر آپ میں خود اعتمادی بڑھانے کے بجائے انہیں اپنی پسند نا پسند پر چلانا چاہیں گے تو لازمی وہ رویوں میں خود سر ہوجائیں گے، بچوں میں لچک پیدا کرنے کے لیے والدین کو اپنے رویئے لچک دار رکھنے ہوں گے، اگر وہ کوئی کام سر انجام دینے میں بار بار ناکام ہوتے ہیں تو انہیں روکنے کے بجائے انہیں اپنی غلطی تلاش کرنے کا موقع دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں، عموماََ والدین بچوں کو اسکول میں خراب پروگریس دیکھ کر کوچنگ سینٹر یا ٹیوشن لگوا دیتے ہیں جس سے پڑھائی میں دلچسپی بڑھنے کے بجائے اور کم ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے کھیل کود کا وقت بھی کوچنگ کی نظر ہو جاتا ہے، اسی طرح کچھ والدین پیسے دے کر بچوں کو امتحانات میں پاس کرواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے میں پاس ہونے کی قابلیت ہی نہیں جبکہ مسئلہ کچھ اور ہوتا ہے جو عدم توجہی کے باعث دبا رہ جاتا ہے اور والدین کے ساتھ بچے بھی غلط راستوں کو انتخاب کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔

4۔ احساس اور ہمدردی پیدا کیجیئے:

آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی وجہ سے نا صرف نوجوان نسل کی قوتِ برداشت کم ہو گئی ہے بلکہ ہمارے سماجی اور معاشرتی اقدار بھی متاثر ہوتے جا رہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرے کا خاصہ تھیں، لا محالہ آنے والی نسل ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہوگی کیونکہ انہوں نے آنکھ ہی ایک مشینی دنیا میں کھولی ہے جہاں ان کے والدین بھی حقیقی زندگی سے زیادہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، لہذا آنے والی نسل کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی روٹین کو محدود کر کے زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کو دیں، ان میں انسانوں اور جانوروں بلکہ پودوں کے لیے بھی احساس اور ہم دردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انہیں فطرت سے قریب اور انٹرنیٹ، ویڈیو گیمز اور سوشل میڈیا سے دور رکھنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی بچوں کو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے اور رابطوں کی جانب اکسائیے، اگر وہ لڑتے جھگڑتے ہیں تو سختی کر کے گھر بٹھانے کے بجائے ان کا مسئلہ سمجھ کر اسے حل کیجیئے، اگر بچوں کو غلطی پر ڈانٹا نہیں جائے تو آہستہ آہستہ یہی رویئے ان کی فطرت بن جاتے ہیں اور وہ دوسروں کے لیے احساس و جذبات یا ہمدردی کے جذبے سے عاری ہو جاتے ہیں۔

5۔ تجربات پر اکسائیے:

ہمارا تعلیمی نظام کچھ ایسا ہے جو بچوں میں تلاش، جستجو یا کھوج یا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے انہیں محض کتابیں رٹنے پر اکساتا ہے اور والدین بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہر برس ایک مخصوص کلاس کا سلیبس رٹ کر پاس کرلینا ہی تعلیم ہے، اس سوچ و فکر کی نفی کرتے ہوئے اپنے بچوں کو تجربات کے ذریعے سیکھنے پر مائل کیجیئے، اگر وہ کسی سائنسی موضوع کو سمجھ نہیں پا رہے تو اس کا تجربہ کروائیے تاکہ وہ اس قانون کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں، اسی طرح ریاضی میں اگر بچہ کمزور ہے تو اسے روز مرہ کی مثالوں کے ذریعے سادہ اصول سمجھا کر پھر بتدریج پیچیدہ اصول سمجھائے جائیں تو بچے ریاضی بھی شوق سے پڑھنے لگتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسکول یا اساتذہ پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے والدین خود بچوں کو مناسب وقت دیں۔

یاد رکھیئے! اولاد کی بہتر تربیت کے لیے والدین کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بعض اوقات خود اپنی بری عادات کو درست کرنا پڑتا ہے، لہذا بچوں کی اصلاح کا آغاز خود اپنی اصلاح سے کیجیئے۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں