پاکستان معاشی بحران کی زد میں ہے، اقوامِ متحدہ

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2019
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر ایشائی خطے کی شرح نمو مزید سست روی کا شکار ہوگی—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر ایشائی خطے کی شرح نمو مزید سست روی کا شکار ہوگی—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک

اسلام آباد: اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ’ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ برائے سال 2019' میں کہا گیا ہے کہ چین، سعودی عرب سے ملنے والی امداد اور عالمی مالیاتی فنڈ سے لیے گئے قرض سے فوری طور پر درپیش مسائل کے حل میں مدد ملنے کے باجود پاکستان کا معاشی بحران دور نہیں ہوسکا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی سالانہ فلیگ شپ رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے باب میں پاکستان کے حوالے سے تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’پاکستان بحران کی زد میں ہے‘۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ملک کی شرح نمو تھم جانے، ادائیگوں کے توازن کی خراب صورتحال، روپے کی قدر میں کمی اور غیر ملکی قرض بڑھنے کی وجہ سے معیشت بحران کا شکار ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2020: پاکستان میں شرح نمو 2.8 فیصد تک رہنے کا امکان، رپورٹ

اس کے علاوہ کہا گیا کہ چینی معیشت کی شرح نمو 2017 کے بعد سے سست روی کا شکار ہے اور ٹریڈ ٹیکنالوجی کے تنازع کے پیشِ نظر 2019 میں اس میں شدت آنے کا امکان ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں بھارتی معیشت کی سست روی کا بھی اندازہ لگایا گیا جہاں حال ہی میں متعارف کراوئے گئے ’اشیا و خدمات ٹیکس‘ کی وصولی مقررہ ہدف سے کم رہی۔

رپورٹ میں تجزیہ کیا گیا کہ مجموعی طور پر ایشائی خطے کی شرح نمو مزید سست روی کا شکار ہوگی۔

مزید پڑھیں: سست معیشت کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں کمی

رپورٹ کے مطابق دراصل چین کی تجارتی شرح نمو کی کمی نے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر معیشتوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔

علاوہ ازیں ’فنانسنگ اے گلوبل گرین ڈیل‘ نامی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اگر ماحولیاتی اور اقتصادی منظرنامے کو سال 2030 تک تبدیل کرنا ہے تو سرکاری بینکوں کو اپنا روایتی کردار ادا کرنا پڑے گا۔

رپورٹ میں بینک سے مطالبہ کیا گیا کہ آج کے دور کی مالیاتی مارکیٹس کو مسترد کرتے ہوئے اپنا طریقہ کار تبدیل کریں جو مسلسل قیاس آرائیوں پر مرکوز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز کے قوانین پر نظر ثانی

علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری بینک نجی بینکوں سے مختلف بنائے جاتے ہیں جن کی توجہ کا مرکز طویل المیعاد منصوبے ہوتے ہیں جبکہ ان کے مفادات خالصتاً تجارتی منافع سے بالاتر اور ایسے شعبوں اور جگہوں پر ہوتے ہیں جو عموماً نجی مالیاتی ادارے نظر انداز کردیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں