irfan.husain@gmail.com
[email protected]

وہ افراد جو گزشتہ 5 برسوں سے یمن میں جاری سعودی عرب کی کارروائیاں دیکھ رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے لمحہ schadenfreude کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دیں۔

لمحہ schadenfreude ایک جرمن اصطلاح ہے، جو دوسرے کی تکلیف پر ہونے والی خوشی کے احساس کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ میں بھی حال ہی میں اس تجربے سے اس وقت گزرا جب ابقیق اور خریص کے مقام پر سعودی تیل کی تنصیبات اور کنوؤں سے اٹھتی آگ کو دیکھا۔

جہاں اس حملے پر پوری دنیا نے مذمت کی وہیں کسی نے بھی سعودی اور اماراتی فضائی حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے ہزاروں متاثرین سے ہمدردی کے لیے لب کشائی تک نہ کی۔

ہم باہر کیوں جائیں، ہماری اپنی حکومت نے بھی بلاتاخیر حملے کی مذمت کی لیکن دوسری طرف مکروہ سعودی مظالم کے آگے چپ سادھے ہوئے ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی اموات سے ہٹ کر بات کی جائے تو سعودیوں نے تو بحری بندرگاہوں کی بندش کے ذریعے تقریباً 2 کروڑ یمنیوں کو بیماریوں اور بھوک سے مرنے کی نہج پر لا کھڑا کردیا ہے۔

گارجین اخبار کی کالم نگار نسرین ملک نے حال ہی میں لکھا تھا کہ ’اپنی جنگیں لڑنے میں سعودی عرب کی ہچکچاہٹ کے بارے میں مشرق وسطیٰ کے اندر ایک پرانا لطیفہ سننے کو ملتا ہے اور وہ یہ کہ سعودی عرب آخری پاکستانی زندہ بچنے تک اپنی لڑائی جاری رکھے گا۔‘

یہ فقرہ دراصل اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی ایک عرصے سے سعودی عسکری مہمات کے حامی رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے شہریوں کے لیے ادنیٰ تصور کرنے والے مشقت بھرے کاموں کے لیے افرادی قوت خریدنے کا عادی ہے اور اپنی عسکری قوت کے معاملے میں بھی اسی فلسفے کو اپناتا ہے۔

’جب واپس لوٹنے والے چند سوڈانی فوجیوں سے پوچھا گیا کہ یمن کے اندر سعودیوں کی قیادت میں لڑنے سے متعلق ان کا تجربہ کیسا رہا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سعودی عسکری رہنما اپنی جان کو اتنا قیمتی سمجھتے ہیں کہ محاذ کے قریب جانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ وہ کرائے پر لیے گئے فوجیوں کو سیٹلائٹ فونز کے ذریعے ہدایات جاری کرتے ہیں جو انہیں بے سمت جنگی کارروائیوں پر مائل کرتی ہیں۔ جب حالات بہت زیادہ بگڑتے نظر آتے تو سعودی اور اتحادی فورسز فضائی حملے شروع کردیتے جس کے نتیجے میں شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوتا۔ سعودیوں کا لڑنے کا انداز یہ ہے: جتنا ممکن ہو اتنا دُور سے لڑو اور مرنے کے لیے دوسروں کو پیسے دو۔'

ایک عالمی راگ یہ الاپا جا رہا ہے کہ سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران ہے۔ عالمی سطح پر تیل فراہمی متاثر نہ ہو، اس مقصد کے حصول کی خاطر اپنی لڑائی لڑنے میں ہچکچاہٹ کے شکار ریاض نے ایرانیوں کو جواب دینے کے لیے اپنے اتحادیوں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند لوگ تو تیل تنصیبات کو پہنچنے والے زبردست نقصان کی وجہ یمن میں ہونے والے سعودی مظالم کو قرار دیتے ہیں۔

ایران حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرچکا ہے اور واقعے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے امکانات دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتے۔ دوسری طرف حوثی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے مگر جس طرح بنا کسی غلطی یا خامی کے ساتھ جن تکنیکی صلاحیتوں کی مدد سے یہ حملہ کیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ باغیوں کا کیا دھرا ہے۔

خیر حملے کے پیچھے کوئی بھی ہو، لیکن ذرا بھی غلطی کیے بغیر ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ڈرونز اور میزائلوں کی رینج پر سعودیوں اور امریکیوں کو تشویش ضرور ہونی چاہیے۔

ان حملوں کو اوباما دور میں ہونے والے ایٹمی معاہدے کو ترک کرنے کے عمل سے بھی جوڑا جارہا ہے۔ ایران پر عائد موجودہ اقتصادی پابندیوں سے مطمئن نہ ہونے پر ٹرمپ نے اسکریو ٹائٹ کیا ہے تاکہ ایران کے لیے تیل کی برآمدات کو بظاہر طور پر ناممکن بنا دیا جائے۔ جہاں سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران کے دکھوں پر خوشیاں منائی ہیں وہیں صدر روحانی نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ان کا ملک آبنائے ہرمز کے ذریعے تیل برآمد نہیں کرسکتا تو کسی دوسرے کو بھی اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری طرف امریکا میں خام تیل کے زخائز کی تلاش سے متعلق انتہائی کامیاب مہم کے بعد اس کا مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار معقول حد تک کم ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی بدلی ہے۔

اسرائیل میں ہونے والے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری کے سبب نیتن یاہو اس انداز میں دباؤ ڈالنے کی حالت میں نہیں ہے جیسا وہ چند ماہ پہلے تک ڈال سکتا تھا۔

کئی لوگوں نے اس اسلحے کی افادیت پر سوال کھڑے کیے ہیں جو سعودی عرب نے اربوں ڈالر دے کر خریدے ہیں، خاص طور پر امریکا سے خریدے گئے اسلحے کی افادیت پر۔

حال ہی میں جب ڈرون طیاروں اور میزائلوں نے ہدف کو نشانہ بنایا تب Patriot دفاعی نظام کی جانب سے کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نظام کو نچلی اڑان بھرنے والے ڈرون طیاروں کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ بلندی سے نیچے کی طرف آنے والے میزائل حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ برسہا برس سے سعودی بھاری بھرکم قیمتوں پر جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری کرتے چلے آ رہے ہیں، جبکہ نوجوان شہزادے اس خرید و فروخت کے عوض بھاری کمیشن لینے میں مبینہ طور پر شامل رہے ہیں۔ یہ ہتھیار صحرا میں پڑے رہتے ہیں اور پھر بدلتے دور کے ساتھ ان ہتھیاروں کو مزید جدید ہتھیاروں سے بدل دیا جاتا ہے۔

ممکن ہے کہ یمن کے خلاف سعودیوں کی لڑائی میں پاکستانی بھی شامل ہوں اور اگر ایسا ہے تو یہ بات میرے لیے باعث شرمندگی ہے۔ جب ریاض نے جنرل راحیل شریف کو بھرتی کیا تب ان کے کردار کو لے کر تھوڑی کنفیوژن پیدا ہوئی تھی۔ لگتا ہے کہ اب کافی حد تک واضح ہوگیا ہے۔ تاہم اگر وہ واقعی سعودی کارروائیوں میں شامل ہیں تو یمن میں اتحادی فوج کی کارکردگی ان کی صلاحیتوں کو زیادہ متاثر کن ثابت نہیں کرتی۔

شطرنج کی بساط پر اگر مہرے کو بے یار و مددگار حریف کی حدود میں دھکیلا جائے تو اس کی عمر غالباً چھوٹی ہی ثابت ہوتی ہے۔ امریکا کے پاس اس خطے میں ایسے متعدد فوجی اڈے ہیں جنہیں جنگی کارروائیوں کی صورت میں ایران نشانہ بناسکتا ہے۔ اسی طرح سعودیوں کے پاس کئی سارے آسان اہداف ہیں۔ اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو کسی وقت میں اثاثے کے طور پر دیکھے جانے والے یہ سارے اڈے فوری جوابی کارروائی کی زد میں ہوں گے۔

وقت آگیا ہے کہ حالات کو جنگ کی طرف لے جانے کے بجائے ایران پر لگیں پابندیوں کو ہٹانے کی بات کی جائے۔


یہ مضمون 28 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

ابو عبداللہ Oct 17, 2019 12:07am
ایران کے متعلق خبریں 40 سال سے آ رہی ھیں مگر پھر غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ھے۔ عراق کے لاکھوں کو ظالموں نے کسی جرم میں قتل کیا ۔۔ شام نے کیا کیا تھا ۔۔ دنیا ان ظالموں کے ذکر سے بھی ڈرتی ھے۔۔ اسرائیل کا تو کوئی قصور ہی نہیں ۔۔۔ لگتا ھے ا اندھے کی لاٹھی بھی دیکھ کر چلتی ھے۔۔۔
ایس احمد واشنگٹن ڈی سی Oct 17, 2019 12:37am
میں ٰعرفان حسین کی نگارشات ٰباقاعدگی کے ساتھ پڑھتا رہتا ہوں،