’ملک میں ادویات کے مضر اثرات جانچنے کا نظام ہی موجود نہیں‘

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2019
پاکستان میں سالانہ ہر شخص کو 8 انجیکشن لگائے جاتے ہیں— فائل فوٹو: گیٹیز فارما
پاکستان میں سالانہ ہر شخص کو 8 انجیکشن لگائے جاتے ہیں— فائل فوٹو: گیٹیز فارما

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان میں نہ تو ادویات کے مضر اثرات جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی اس وجہ سے انتقال کرجانے والے یا معذوری کا شکار ہوجانے والے افراد کے کوئی اعداد و شمار دستیاب ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں ادویات کے مضر اثرات کے باعث محض 10 فیصد افراد ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معاون خصوصی برائے صحت کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ ہر شخص کو 8 انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ادویات کو غیر موثر کرنے والے مہلک بیکٹیریا میں اضافہ

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ’95 فیصد انجیکشن غیر ضروری طور پر لگائے جاتے ہیں اور ہم ادویات کے غیر ضروری استعمال سے بچنے کے لیے پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارمسسٹ (پی ایس ایچ پی) سے تعاون کرنا چاہ رہے ہیں‘۔

معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا تھا کہ غیر محفوظ انجیکشن کی وجہ سے نہ صرف انفیکشن سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ یہ لوگوں کی ہلاکت اور مستقل معذوری کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس صورتحال میں ادویات کے اثرات کا جائزہ لینے اور ان کے تحفظ کے حوالے سے موثر نظام کے قیام کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کا مزید کہنا تھا کہ انہیں پہلی مرتبہ ادویات کے مہلک اثرات کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب انہوں نے 1993 میں جاپان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کے ہر گھر میں استعمال ہونے والی گولی سے وہاں 60 سے 70 افراد مکمل طور پر نابینا یا معذور ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: عالمی ادارہ صحت نے پہلی بار پاکستانی دوا کو تسلیم کرلیا

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں آئندہ 30 سالوں تک وہ دوا تجویز کی جاتی رہی کیوں کہ یہاں ادویات کے مضر اثرات کا جائزہ لینے کا کوئی نظام موجود نہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ انہوں نے فارماسوٹیکل کے شعبے میں اصلاحات اور ادویات کے حوالے سے مسائل دور کرنے کے لیے ملک کی پہلی میڈیسن پالیسی بنانے کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور آئندہ 6 سے 8 ماہ میں ہماری میڈیسن پالیسی تیار ہوجائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں