جج ویڈیو کیس: نواز شریف کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2019
مریم نواز جج ارشد ملک کی ویڈٰو سامنے لائی تھیں، جس کے بعد انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ
مریم نواز جج ارشد ملک کی ویڈٰو سامنے لائی تھیں، جس کے بعد انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا — اسکرین شاٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے جج ویڈیو اسکینڈل میں عدالتی فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کردی۔

عدالت عظمیٰ میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے یہ درخواست دائر کی گئی، جس میں جج ارشد ملک و دیگر کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہمیں نوٹس کیے بغیر اور ہمیں سنے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا، ہمارا موقف لیے بغیر عدالت نے معاملے کے پیرامیٹرز طے کردیے۔

نظرثانی درخواست میں استدعا کی گئی کہ ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر ہمارا موقف بھی سنا جائے، سپریم کورٹ نے ویڈیو اسکینڈل میں جو فیصلہ دیا، اُس سے ہمارا حق متاثر ہوا، لہٰذا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمارا موقف سنا جائے۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: مرکزی ملزم ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان گرفتار

عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ ہمارا موقف سن کر سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے جبکہ ساتھ ہی نظرثانی اپیل میں نواز شریف نے اپنے خلاف عدالتی مشاہدے پر نظرثانی کی بھی استدعا کی۔

ویڈیو اسکینڈل

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

جج ارشد ملک کا جواب

ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ انہیں کسی طرح کا لالچ نہیں تھا جبکہ انہوں نے تمام عدالتی فیصلے خدا کو حاظر و ناظر جان کر اور قانون و شواہد کی بنیاد پر کیے ہیں۔

انہوں نے پریس ریلیز میں الزام عائد کیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف دائر ریفرنس کی کارروائی کے دوران انہیں رشوت کی بھی پیشکش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج ارشد ملک کو ہٹانے کا حکم

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل: سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ میں او ایس ڈی بنا دیا گیا

بعد ازاں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے اشتیاق احمد مرزا نے ایڈووکیٹ چوہدری منیر صادق کے توسط سے 11 جولائی کو سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی، جس کے بعد مذکورہ معاملے پر مزید دو درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں