وزارت قانون نے وفاقی کابینہ سے مزید 6 آرڈیننسز کی منظوری طلب کرلی

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2019
وزارت قانون کے مطابق قانون سازی کے عمل میں کافی وقت لگے گا اس لیے ان بلوں کو آرڈیننسز کے ذریعے نافذ کیا جائے — فائل فوٹو: اے پی پی
وزارت قانون کے مطابق قانون سازی کے عمل میں کافی وقت لگے گا اس لیے ان بلوں کو آرڈیننسز کے ذریعے نافذ کیا جائے — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن کی شدید تنقید کے باوجود وزارت قانون نے مزید 6 آرڈیننس کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون نے سمری کے ذریعے وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا کہ وزارت نے 6 آرڈیننس تیار کیے ہیں اور تجویز دی کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر مذکورہ آرڈیننسز کا اجرا ضروری ہے۔

وزارت قانون کے مطابق مذکورہ آرڈیننس ایک طویل عرصے سے قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں پیش کیے گئے بلز کی صورت میں زیرِ التوا ہیں۔

وفاقی کابینہ کو ارسال کی گئی سمری میں کہا گیا کہ ’چونکہ قانون سازی کے عمل میں بہت وقت لگے گا اس لیے مذکورہ بلز کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کی تجویز دی جاتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: حکومت نے ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد کم آرڈیننس جاری کیے، پی ٹی آئی سینیٹر

خیال رہے کہ وزارت قانون کی جانب سے تجویز کردہ آرٰڈیننسز میں لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس (وراثتی صداقت ناموں) آرڈیننس 2019، جائیداد میں خواتین کے حقوق کے نفاذ سے متعلق آرڈیننس 2019، بے نامی ٹرانزیکشز کے خلاف (ترمیمی) آرڈیننس 2019، سپیرئیر کورٹ (ضابطہ لباس اور طریقہ کار) آرڈر (منسوخ) آرڈیننس 2019، قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس 2019 سمیت قانونی مدد اور جسٹس اتھارٹی آرڈیننس 2019 شامل ہیں۔

وزارت قانون کی سمری میں کہا گیا کہ ’قانونی اصلاحات کے لیے وفاقی حکومت نے وزیر برائے قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے عوام کی مشکلات کے حل کے لیے قوانین تجویز کرنا ہے‘۔

سمری میں کہا گیا کہ ’لوگوں بالخصوص خواتین کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ٹاسک فورس نے جائیداد میں خواتین کے حقوق کی حفاظت، غریب اور کمزور طبقے کےلیے قانونی مدد کے طریقہ کار کا قیام اور نیشنل بیس ڈیٹا رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے وراثت کے صداقت ناموں کے اجرا کے طریقہ کار سے متعلق نئے قوانین تجویز کیے ہیں‘۔

وفاقی کابینہ کو ارسال کی گئی سمری میں عدالتی اصلاحات سے متعلق آرڈیننسز کی منظوری طلب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو بااختیار بناتا ہے یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو اپنا عمل اور کارروائی منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے، لہٰذا تجویز دی گئی ہے کہ عدالت کے لباس اور عدالتی طریقہ کار سے متعلق قانون کو منسوخ کیا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی ٹی آئی ہمارے نہیں اپنے اراکینِ اسمبلی کی فکر کرے'

سمری میں کہا گیا کہ ’اعلیٰ عدالتوں کو مناسب لباس کے لیے ضابطہ اور عدالت میں وکلا کے طرز عمل کا طریقہ طے کرنے کی اجازت دی جائے‘۔

وزارت قانون کا کہنا تھا کہ اس نے بے نامی ٹرانزیکشنز کو بے نقاب کرنے اور قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت گرفتار کیے جانے والی شخصیات سے متعلق بھی 2 آرڈیننس تیار کیے ہیں۔

سمری میں کہا گیا کہ یہ وفاقی کابینہ کی ہدایات کی روشنی میں تجاویز دی گئی ہیں جس میں وزارت قانون کو ’مفادِ عامہ کے معاملات سے متعلق مذکورہ قانونی مسودوں کا جائزہ لینے اور ان کے نفاذ کا بہترین طریقہ کار تجویز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی‘۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قومی اسمبلی میں 11 آرڈیننس لاچکی ہے جبکہ رواں ماہ کے آغاز میں سی پیک اتھارٹی کے قیام اور گوادر پورٹ کو ٹیکس استثنیٰ دینے سے متعلق مزید 2 آرڈیننس جاری کیے گئے تھے۔

علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے متنازع ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کروائی گئی تھی اور اسے شدید مذمت کے بعد واپس لے لیا گیا تھا۔

حکومت کو اقتدار سنبھالے کے بعد سے پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

گزشتہ ہفتے سینیٹ اجلاس میں حکومت کی جانب سے آرڈیننس لانے کی کوشش کے بعد اپوزیشن جماعتیں واک آؤٹ کرگئی تھیں۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر سسی پلیجو کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے بھی گزشتہ ہفتے مذکورہ معاملہ اٹھایا تھا۔

تاہم اجلاس کے دوران وزارت پارلیمانی امور کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومتوں کے دوران ایک سال میں اوسطاً 26 آرڈیننس جاری کیے جاتے تھے۔

اس وقت قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں مجموعی طور پر 127 بل زیر التوا ہیں جن میں نجی ارکان کے 102 بلز بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں