کیا آپ جانتے ہیں معلومات تک رسائی آپ کا حق ہے؟

14 اکتوبر 2019
پاکستان کے عام شہری معلومات تک رسائی کے قوانین سے بے خبر ہیں—فوٹو: ڈان
پاکستان کے عام شہری معلومات تک رسائی کے قوانین سے بے خبر ہیں—فوٹو: ڈان

آصف منور کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے اور وہ سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے منعقدہ معلومات تک رسائی (آرٹی آئی) کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ مختلف سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول بالخصوص اقلیتوں کے لیے مختص کوٹے پر ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں، معلومات کے حصول کے بعد وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو مختلف محکموں میں خالی اسامیوں اور ان پر ہونے والی بھرتیوں کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہیں۔

پاکستاان میں معلومات تک رسائی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے تحریری طور پر معلومات مانگ سکتا ہے اور اس کے لیے شہری سرکاری محکمے کو ان معلومات کے حصول کے اغراض و مقاصد بتانے کا پابند نہیں ہیں، معلومات کے لیے تحریری درخواست دینے کے بعد 14 دن تک جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں شہری کو متعلقہ انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کی رکن عظمٰی بخاری بھی معلومات کے حصول کے لیے باقاعدگی سے ان قوانین کا استعمال کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت مختلف اداروں کو معلومات کے لیے درخواستیں دیں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا، حال ہی میں انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے استعمال پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل مانگی تھی جو انہیں فراہم نہیں کی گئیں۔

عظمٰی بخاری نے رواں سال 25 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر بحث کے لیے تحریک التوا بھی جمع کرائی تھی تاہم ان کے مطابق اسے اسپیکر کی جانب سے ان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جو حالیہ حکمران دعویٰ کرتے تھے کہ وہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت شفافیت لائیں گے وہ اب نہ صرف شہریوں سے بلکہ اراکین اسمبلی سے بھی معلومات چھپاتے ہیں۔

قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ’دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017‘ پاس کیا تھا، جس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نافدالعمل ہے۔

اٹھاریوں ترمیم میں پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم کہتے ہیں کہ عموما شہری اپنے علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں یا سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں جبکہ سماجی تنظیمیں سرکاری محکموں کو ملنے والے بجٹ اور اس کے استعمال سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتی ہیں۔

معلومات تک رسائی سے متعلق قانون سازی کے باوجود سرکاری ادارے شہریوں کو معلومات کی فراہمی سے گریزاں ہیں جبکہ حکومت ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ انفارمیشن کمیشن کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

رائٹ ٹو انفارمیشن قوانین کے تحت کوئی بھی شہری کسی حکومتی ادارے سے معلومات لے سکتا ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک
رائٹ ٹو انفارمیشن قوانین کے تحت کوئی بھی شہری کسی حکومتی ادارے سے معلومات لے سکتا ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

پاکستان انفارمیشن کمیشن اور سندھ انفارمیشن کمیشن گزشتہ سال تشکیل دیے گئے تھے تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود انہیں تاحال مکمل طور پر فعال نہیں بنایا جاسکا، وزیراعلیٰ سندھ نے گزشتہ مالی سال کے دوران سندھ انفارمیشن کمیشن کے لیے 5 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے تھے تاہم ذرائع کے مطابق کمیشن کو تاحال ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا جاسکا، اسی طرح پاکستان انفارمیشن کمیشن کے لیے رواں مالی سال میں 7 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، تاہم کمیشن کو تاحال نہ ہی افرادی قوت فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اپنا دفتر قائم کرنے کے لیے کوئی جگہ دی گئی ہے۔

اس حوالے سے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے بتایا کہ وہ اور ان کے دو انفارمیشن کمشنرز اسلام آباد میں واقع انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے ایک کمرے میں بیٹھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے 100 دنوں میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کو تشکیل دے کر یہ ثابت کردیا کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی میں سنجیدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے صرف قانون پاس کیا تھا جبکہ موجودہ حکومت اس قانون پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کررہی ہے۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کے سابق انفارمیشن کمشنر مختار احمد نے بتایا کہ ماضی میں ایک سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد انہیں پنجاب انفارمیشن کمیشن کے لیے دفتر فراہم کیا گیا تھا جبکہ مالی وسائل اور افرادی قوت کے بحران کی وجہ سےکمیشن کی کارکردگی متاثر ہوتی رہی۔

معلومات تک رسائل کے قوانین سے متعلق خیبرپختونخوا کسی حد تک مثالی صوبہ تصور کیا جاتا تھا تاہم اب شہری خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کی حالیہ کارکردگی سے بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے محمد نعیم جو باقاعدگی سے معلومات تک رسائی کا قانون استعمال کرتے ہیں، انہوں نے کمیشن پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب کمیشن ہہلی کی طرح متحرک نہیں۔

خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق کمیشن کو موصول ہونے والی 95 فیصد شکایات کو حل کردیا گیا ہے تاہم محمد نعیم کا دعویٰ ہے کہ کمیشن کی کارکردگی اب صرف نوٹس جاری کرنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی ایک درخواست پر عبدالولی خان یونیورسٹی سے 16 ماہ بعد معلومات حاصل ہوئی جبکہ معلومات تک رسائی کی ایک اور درخواست پر گزشتہ 4 ماہ سے کمیشن نے کوئی سمن جاری نہیں کیا ہے، ان کے مطابق پہلے صورت حال ایسی نہ تھی۔

انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل انہوں نے تحصیل میونسپل اتھارٹی مردان میں کام کرنے والے سینٹری ورکرز سے متعلق معلومات حاصل کی تھیں اور حاصل ہونے والی معلومات میں انکشاف ہوا تھا کہ 60 فیصد سینٹری ورکرز یا تو ڈیوٹی ہی نہیں کرتے یا پھر وہ بااثر شخصیات کے ہاں کام کرکے سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

اس معلومات کو انہوں نے سوشل میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا جس کے بعد 300 سینٹری ورکرز کو نوکریوں سے برخاست کردیا گیا تھا۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے صحافی ندیم عمر بھی گزشتہ 2 سال سے باقاعدگی سے معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن میں شکایات کو نمٹانے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے، شہریوں کو اپنی شکایت کی موجودہ صورتحال جاننے کے لیے بار بار کمیشن کے دفتر فون کرنا پڑتا ہے جو ایک مشکل کام ہے، وہ کہتے ہیں کہ کمیشن کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری محکمے مذکورہ قانون کے تحت موصول ہونے والی درخواستوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سجاد علی کہتے ہیں کہ سرکاری محکمے کے افسران معلومات کی فراہمی میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات فراہم کردہ معلومات یا تو نا مکمل ہوتی ہیں یا غیرمتعلقہ معلومات فراہم کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی شکایت کے لیے شہریوں کو دوبارہ کمیشن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔

وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قوانین بنا رکھےہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قوانین بنا رکھےہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

ندیم عمر کہتے ہیں کہ ایک سال قبل جب انہوں نےاینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ راولپنڈی کومعلومات کی فراہمی کے لیے درخواست جمع کرائی تو انہوں نے یہ لکھ کر ان کی درخواست مسترد کردی کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ مذکورہ قانون کے تحت معلومات دینے کا پابند نہیں جس کے خلاف انہوں نے کمیشن سے رجوع کیا لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ان کی شکایت پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

دی پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے سیکشن 15 میں لکھا ہے کہ کمیشن پبلک انفارمیشن آفیسر کو اپنے دفاع کے مواقع فراہم کرنے کے بعد معلومات فراہم نہ کرنے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرسکتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا سیکشن (3) 26 بھی کمیشن کو سرکاری محکموں پر معلومات کی عدم فراہمی کی صورت میں جرمانے کا اختیار دیتا ہے اور انہیں اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن 17 سرکاری محکموں پر 20 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرچکا ہے جس میں پشاور پریس کلب، ایبٹ آباد پریس کلب اور مردان پریس کلب بھی شامل ہیں۔

جبکہ پنجاب انفارمیشن کمیشن مذکورہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے محکمہ ایریگیشن کے 3 افسران پر مجموعی طور پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرچکا ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی جانب سے مانگی گئی ایک انکوائری کمیٹی کی رپورٹ فراہم نہ کرنے پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرچکی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ ( ایس ایس ڈی او) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے محکموں میں شفافیت اور شہریوں کو بااختیار بنانے کے لیے سرکاری محکموں کے افسران کو معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت موصول ہونے والی درخواستوں کا بروقت جواب دینے کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔

مختار احمد کہتے ہیں کہ بیورو کریٹس کو ان کی تربیت کے دوران یہ سکھایا جاتا ہے کہ معلومات کو شہریوں سے کیسے چھپانا ہے اور اس ذہنیت کو تبدیل ہونے میں وقت لگے گا، بیوروکریٹس کو اب یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ معلومات تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عام شہری تب ہی ان قوانین کو استعمال کریں گے جب انہیں یقین ہوگا کہ ان کی درخواست پر انہیں معلومات فراہم کردی جائے گی۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر کہتے ہیں کہ افرادی قوت نہ ہونے کے باعث کمیشن کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے، تاہم معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت پنجاب انفارمیشن کمیشن سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق کمیشن میں انفارمیشن کمشنرز پر مشتمل کل 24 ملازمین کام کررہے ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق کمیشن کو سال 2018 میں 1026 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 750 کو حل کردیا گیا ہے تاہم چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سال موصول ہونے والی 1600 شکایات میں سے صرف 5 شکایات زیرالتوا ہیں باقی تمام شکایات کو حل کردیا گیا ہے۔

ایس ایس ڈی او نے پنجاب میں معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کی صورتحال کو جاننے کے لیے صوبے کے 36 اضلاع میں 4 محکموں (پولیس، صحت، تعلیم اور ضلعی انتظامیہ) کے سربراہان کو معلومات کی فراہمی کے لیے 194 درخواستیں بھیجیں، مذکورہ درخواستوں کے جوابات کی بنیاد پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق صرف 20 درخواستوں کا جواب 14 یوم کے اندر موصول ہوا جبکہ 16درخواستوں پر معلومات کمیشن سے رجوع کرنے کے بعد موصول ہوئیں، مجموعی طور پر 194 درخواستوں میں سے صرف 36 درخواستوں کے جواب موصول ہوئے، مذکورہ رپورٹ کے مطابق معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کا تناسب صرف 18 فیصد رہا۔

غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے قوانین ملک میں شفافیت کو یقین بنانے کا بہترین ذریعہ ہیں تاہم بدقسمتی سے یا تو لوگوں کو اس بارے میں علم نہیں ہے یا وہ اسے استعمال نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ سابقہ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2002 موجودہ قانون کی نسبت بہت کمزور قانون تھا اس کے باوجود پلڈاٹ نے اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی سے اراکین اسمبلی کی حاضری سے متعلق معلومات حاصل کرلیں تھیں، اگر کوئی شخص معلومات کے حصول میں سنجیدہ ہو تو یہ قوانین انہیں معلومات کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ شہریوں کی جانب سے ان قوانین کو استعمال نہ کرنے کا ہے۔

معلومات کی آزادی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے پروگرام مینیجر وقاص نعیم کہتے ہیں کہ ایسے تمام معاملات جن میں عوام کا پیسہ استعمال ہوتا ہو ان میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین موثر ذریعہ ہیں، تاہم ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ کمیشنز کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ سماجی تنظیموں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو چاہیے کو وہ ان قوانین اور ان کی افادیت سے متعلق عوام میں شعور اجاگر کریں۔

انگریزی میں پڑھیں


یہ تحریر ڈان ایوس میگزین میں 13 اکتوبر کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں