ترکی، امریکا شمال مشرقی شام میں جنگ بندی پر راضی ہوگئے، مائیک پینس

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2019
امریکی نائب صدر نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے کئی گھنٹے طویل مذاکرات کیے — فوٹو: اے ایف پی
امریکی نائب صدر نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے کئی گھنٹے طویل مذاکرات کیے — فوٹو: اے ایف پی

امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کا کہنا ہے کہ کرد فورسز کے شمال مشرقی شام سے نکلنے کے لیے ترکی وہاں پانچ روز کےجنگ بندی پر راضی ہوگیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان سے کئی گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مائیک پینس نے کہا کہ 'پانچ روز کی جنگ بندی کے دوران امریکا، ترکی پر عائد کی گئی اضافی پابندیوں پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔'

انہوں نے بتایا کہ 'ترکی کی جانب سے شام میں فوجی آپریشن کے خاتمے کے بعد امریکا اس پر عائد کی گئی حالیہ پابندیاں اٹھا لے گا۔'

امریکی نائب صدر نے شام میں کرد فورسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'وائی پی جی فورسز کے انخلا کے بعد شام میں جب مستقل جنگ بندی ہوگی اس صورت میں امریکا، ترکی کے کئی کابینہ اراکین اور متعدد ایجنسیوں پر عائد پابندیاں ہٹانے کے لیے بھی تیار ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکی فورسز نے پہلے ہی وائی پی جی یونٹس سے محفوظ خلاصی کے لیے سہولت فراہم کرنے کا آغاز کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: ترکی کا شام میں مقاصد کے حصول تک آپریشن جاری رکھنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ امریکا اور ترکی اس بات کے لیے پرعزم ہیں کہ وہ ترکی کی سرحد کے قریب شمالی شام میں انقرہ کے 'محفوظ زون' کے مطالبے کا پرامن حل نکال لیں گے۔

مائیک پینس نے کہا کہ وہ ترک صدر سے مذاکرات کے بعد امریکی صدر سے بات کر چکے ہیں اور انہوں نے جنگ بندی معاہدے کے لیے شکریہ ادا کیا ہے۔

ترکی کے جنگ بندی پر راضی ہونے کے فوری بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'ترکی سے اچھی خبر آرہی ہے۔'

انہوں نے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'فیصلے سے لاکھوں لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔'

واضح رہے کہ نیٹو کے اتحادی ترکی اور امریکا کے درمیان یہ معاہدہ دونوں کے ممالک کے تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا، جو چند ماہ سے تناؤ کا شکار تھے۔

امریکی نائب صدر مائیک پینس اور سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ ترکی کا مقصد رجب طیب اردوان کو شام میں آپریشن روکنے کے لیے قائل کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں کرد ٹھکانوں پر حملے، امریکا نے ترکی پر پابندیاں لگادیں

تاہم مذاکرات سے قبل بھی ترک حکام کا کہنا تھا کہ وہ بات چیت کے بعد شام میں کارروائی جاری رہے گی۔

قبل ازیں یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکی صدر کی جانب سے ترک ہم منصب کو شام میں حملوں کے آغاز پر لکھے گئے غیر معمولی خط میں ڈونلڈ ٹرمپ نے انقرہ کو تاریخی خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے رجب طیب اردوان کو ’شیطان‘ قرار دیا تھا اور خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بے وقوف نہ بنیں‘۔

9 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں امریکی صدر نے کہا کہ ’ایک اچھے معاہدے پر کام کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’آپ ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتے اور میں ترک معیشت کی تباہی کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا اور میں ایسا کروں گا‘۔

انہوں نے رجب طیب اردوان کو بتایا تھا کہ ایک ‘عظیم معاہدہ‘ ممکن ہے کہ اگر وہ کردوں کی سرپرستی میں شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے سربراہ مظلوم عابدی سے مذاکرات کرلیں۔

خیال رہے کہ ترکی مظلوم عابدی کو انقرہ میں موجود کرد جنگجو کی وجہ سے ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں