حکومت کا انٹرنیٹ کی نگرانی کے لیے متنازع کمپنی سے ’معاہدہ‘

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2019
ویب مانیٹرنگ سسٹم  کا ٹھیکا ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر کا ہے اور اس کی تاریخ 12 دسمبر 2018 ہے—تصویر: شٹر اسٹاک
ویب مانیٹرنگ سسٹم کا ٹھیکا ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر کا ہے اور اس کی تاریخ 12 دسمبر 2018 ہے—تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی: حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ’انٹرنیٹ نگرانی کا نظام‘ (ویب مانیٹرنگ سسٹم) قائم کرنے کے لیے کینیڈا سے تعلق رکھنے والی 'متنازع' کمپنی کی خدمات حاصل کرلیں۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں نیویارک سے تعلق رکھنے والی اشاعت ’کوڈا اسٹوری‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ سینڈوائن کمپنی نگرانی کے لیے آلات فراہم کرے گی اور پاکستان میں آنے اور یہاں سے جانے والے تمام انٹرنیٹ ٹریفک کا تجزیہ بھی کرے گی۔

خیال رہے کہ رواں برس مئی میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹیلی کام انڈسٹری کو گرے ٹریفک کی روک تھام اور اس کا جائزہ لینے کے لیے ’مناسب تکنیکی حل‘ نافذ کرنے کی تجویز دی تھی، جس میں وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آن لائن ٹریفک کی نگرانی کے نئے حکومتی منصوبے پر 'خدشات'

اس حوالے سے وزیرِ پارلیمانی امور اعظم سواتی نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پی ٹی اے نے ’ان باکس بزنس ٹیکنالوجی‘ اور سینڈوائن انک، سے کہا کہ گرے ٹریفک کی نگرانی کرنے کے لیے آلات فراہم کرے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی اے ان کمپنیوں سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ ہی اس منصوبے میں سرکاری فنڈز کا استعمال کیا گیا۔

تاہم کوڈا رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر دستیاب مارچ 2018 کے ایک ٹینڈر میں قومی سطح پر ویب کی نگرانی کرنے والے نظام اور انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی آن لائن مواد بالخصوص وہ مواد جو پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (برقی جرائم کی روک تھام کے قانون) 2016 کے تحت غیر قانونی ہو، اس کی نشاندہی اور اسے بلاک کرنے کے لیے بولی دہندگان کو مدعو کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کیلئے پی ٹی اے کا خصوصی شعبہ قائم

معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم (ڈبلیو ایم ایس) کا ٹھیکا ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر کا ہے اور اس کی تاریخ 12 دسمبر 2018 ہے۔

مذکورہ ویب مانیٹرنگ سسٹم پی ٹی اے کی جانب سے رابطوں کی نگرانی کرنے، ٹریفک کو جانچنے، اسے اور کال ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے کے لیے ڈِیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی) کا استعمال کرے گا۔

اس ٹھیکے پر متعدد فریقین نے دستخط کیے ہیں، جس میں پاکستان فرم ان باکس بزنس ٹیکنالوجیز لمیٹڈ، بھی شامل ہے جو ’ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر کی خریداری اور ویب مانیٹرنگ نظام سے منسلک' دیگر خدمات فراہم کرنے لیے پی ٹی اے اور سینڈوائن کی مقامی شراکت دار کے طور پر کام کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور

خیال رہے کہ یہ نیا نظام 2010 کے اس متنازع قانون کا نتیجہ ہے جس میں پاکستان سے جانے اور پاکستان میں آنے والے کسی بھی ٹریفک کی نگرانی اور اسے بلاک کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں سینڈوائن کے آلات نصب کرنے کا لائسنس رکھنے والی کمپنی انباکس بزنس ٹیکنالوجیز میں موجود ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم ابھی فعال نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب رپورٹ کی تیاری میں جب پی ٹی اے سے سینڈوائن یا ان باکس بزنس ٹیکنالوجیز سے کسی بھی قسم کے معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ حکام کا انباکس یا سینڈوائن سے اس وقت یا ماضی میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

تاہم پی ٹی اے حکام کا یہ ضرور کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں ملک کی ٹیلی کام انڈسٹری کو ٹیکنالوجی فراہم کرسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کا فیصلہ

رپورٹ میں ویب کی نگرانی کے لیے سینڈوائن کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، سال 2012 میں جب حکومت نے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کے مواد کی چھان بین کا نظام قائم کرنے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں تو سینڈوائن ان کمپنیوں میں شامل تھی جس نے انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس منصوبے کے لیے بولی نہیں دے گی۔

تاہم پاکستان ٹیلی کمیونکیشن کمپنی لمیٹڈ کی ویب سائٹ پر موجود ایک ٹینڈر نوٹس سے تصدیق ہوتی ہے کہ سینڈوائن 2016 میں پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کررہی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں