Dawnnews Television Logo

بابری مسجد کی تعمیر، شہادت اور عدالتی فیصلے تک کیا کچھ ہوا

تاریخی بابری مسجد کو 1992 میں شہید کردیا گیا تھا، اب اس کی جگہ بھارتی عدالت نے مندر بنانے کا فیصلہ سنادیا۔
اپ ڈیٹ 09 نومبر 2019 07:14pm

بھارتی سپریم کورٹ نے 9 اکتوبر کی صبح 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو متنازع زمین دینے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر جہاں ہندوؤں کی جانب سے جشن منایا گیا، وہیں بھارتی مسلمانوں کی جانب سے فیصلے پر مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے لگ بھگ 27 سال بعد فیصلہ سنایا، جس پر ابتدائی طور پر بھارت کی کسی مسلمان تنظیم کی جانب سے سخت رد عمل سامنے نہیں آیا۔

بہت سارے لوگ اگرچہ بابری مسجد کی شہادت سے کسی نہ کسی طرح باخبر ہیں، تاہم کئی افراد کو اس تاریخی مسجد کی مفصل تاریخ کا علم نہیں۔

اس لیے ہم یہاں ’بابری مسجد‘ کی تعمیر سے شہادت اور بعد ازاں اس کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے عدالتی فیصلے کی مختصر مگر مفصل تاریخ پیش کر رہے ہیں۔

بابری مسجد تعمیر سے تنازعات تک

دسمبر 1992 میں مسجد کو شہید کیا گیا تھا—فائل فوٹو: دی ہندو
دسمبر 1992 میں مسجد کو شہید کیا گیا تھا—فائل فوٹو: دی ہندو

1528: ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے بھارت کی حالیہ ریاست اتر پردیش کے شہر’ایودھیا‘ پر بابری مسجد تعمیر کروائی۔

ہندوؤں کے عقیدے کےمطابق ’ایودھیا‘ وہ مقام ہے جہاں ان کے دیوتا ’رام‘ کی پیدائش ہوئی اور اسی شہر میں مسجد کی تعمیر کے بعد وہ برہم دکھائی دیے۔

ساتھ ہی ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی تھی، وہاں ایک مندر تھا، جسے 16 ویں صدی میں گرایا گیا تھا، تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ مسلمانوں کی جانب سے مندر گراکر اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کے شواہد نہیں ملے۔

1885: ایک ہندو مذہبی رہنما مہنت رگھوبیر داس نے مسجد کے باہر اپنی عارضی رہائش گاہ قائم کرنے کے لیے ایودھیا شہر کے ضلع فیض آباد کی عدالت میں درخواست دائر کی، تاہم عدالت نے اسے مسجد کے باہر اپنی رہائش گاہ تعمیر کرنے سے روک دیا۔

1949: ہندو مذہب کے پیروکاروں اور اہم رہنماؤں نے بابری مسجد کے مرکزی گنبذ میں ’رام‘ کی مورتیاں سجادیں۔

1950: فیض آباد کی مقامی عدالت میں ہندوؤں نے بابری مسجد کے اندر سجائی گئی ’رام‘ کی مورتیوں کی پوجا کرنے کی قانونی اجازت مانگنے کے لیے درخواست دائر کی۔

1950: ایک اور ہندو مذہبی رہنما نے بھی فیض آباد کی عدالت میں مسجد میں جاکر ’رام‘ کی مورتیوں کی پوجا کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی۔

1959: ہندوؤں نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے فیض آباد کی عدالت میں بابری مسجد کی جگہ کا قبضہ دینے اور مسجد کی جگہ اکھاڑہ قائم کرنے کی درخواست دائر کی۔

1981: اترپردیش کے وقف بورڈ نے مسجد کی زمین کے اختیارات حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔

1986: فیض آباد کی عدالت نے ہندو مذہبی رہنماؤں کی درخواست پر ہندوؤں کو مسجد میں جاکر ’رام‘ کی پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔

1986: الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد میں رکھے گئے ’رام‘ کے ڈھانچوں کو وہی رکھے جانے کا حکم دیا۔

1992: دسمبر میں مشتعل ہندوؤں نے حدود پار کرتے ہوئے تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا۔

مسجد کی شہادت کے فوری بعد بھارت بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور تقریباً چند ماہ میں 2 ہزار افراد قتل ہوئے

بابری مسجد شہادت سے متنازع فیصلے تک

بھارتی سپریم کورٹ نے تقریبا 27 سال تک سماعتیں کرنے کے بعد ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: انڈیا ٹوڈے
بھارتی سپریم کورٹ نے تقریبا 27 سال تک سماعتیں کرنے کے بعد ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: انڈیا ٹوڈے

1993: مسجد کی شہادت کے چند ماہ بعد بھارت کی وفاقی حکومت نے اپریل میں مذکورہ جگہ کے حوالے سے ایک نیا قانونی ایکٹ نافذ کردیا اور اسی سال بابری مسجد کی زمین کی مالکی سے متعلق ہندوؤں سمیت مسلمانوں نے بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔

1993: بھارتی سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کے آرٹیکل 193 کے تحت بابری مسجد سے متعلق جڑی تمام درخواستوں کو اپنے ہاں منتقل کرنے اور اس کیس پر سماعت کا حکم دیا، جہاں یہ کیس 9 اکتوبر 2019 تک تقریبا 27 سال تک چلتا رہا۔

1994: بھارتی سپریم کورٹ نے مسجد کی شہادت کے محض 2 سال بعد کہا کہ ’مسجد کا تعلق اسلامی عبادات سے نہیں‘، عبادات مسجد کے بغیر بھی کی جا سکتی ہیں اور بھارتی عدالت اسی دلیل کو آنے والے سالوں میں بھی سماعتوں کے دوران پیش کرتی رہی۔

2003: بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم میں کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے مقام پر کسی بھی مذہبی رسومات کی اجازت نہیں۔

2010: بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ بابری مسجد کی زمین کو 3 حصوں یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں سمیت سنی وقف بورڈ میں تقسیم ہوگی۔

2016: ایک ہندو مذہبی رہنما نے بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی اور 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

2017: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کا معاملہ عدالت سے باہر حل کرنے کی تجویز دی۔

2017: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ مسجد کچھ دوری پر دوسرے علاقے میں بنائی جا سکتی ہے۔

2017: اتر پردیش کے شیعہ مسلم گروپ نے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر اور مسجد کی تعمیر لکھنؤ میں کی جا سکتی ہے۔

2018: جولائی میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت اور اس کی زمین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔

2019: جنوری میں کیس کی سماعت کرنے والے ایک ہندو جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔

2019: جنوری کے آخر میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے کے لیے نیا 5 رکنی بینچ تشکیل دیا۔

2019: فروری سے اگست: فروری میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کے مالکانہ حقوق سے متعلق فریقین میں ثالثی کرانے کی تجویز دی اور اگست تک ثالثی عمل کو مکمل کرنے کا حکم دیا۔

2019: ثالثی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔

2019: اگست کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حوالے سے فیصلہ سنانے کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی ملازمت سے سبکدوشی سے قبل 17 نومبر تک فیصلہ سنادیا جائے گا۔

2019: سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے کے لیے ہونی والی سماعتوں کا بھی فیصلہ محفوظ کرلیا۔

2019: 9 نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے اور مسجد کسی دوسری جگہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

ایودھیا کو ہندوؤں کا مقدس شہر مانا جاتا ہے، جہاں رام کے پیدا ہونے کی مقدس جگہ بھی ہے—فائل فوٹو: دی ہندو
ایودھیا کو ہندوؤں کا مقدس شہر مانا جاتا ہے، جہاں رام کے پیدا ہونے کی مقدس جگہ بھی ہے—فائل فوٹو: دی ہندو