پاکستان کی 114 جیلوں میں گنجائش سے 19 ہزار قیدی زیادہ ہیں، محتسب

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2019
رپورٹ میں کہا گیا کہ جاری کردہ ایک ارب 10 لاکھ روپے کی رقم استعمال کی جا چکی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ میں کہا گیا کہ جاری کردہ ایک ارب 10 لاکھ روپے کی رقم استعمال کی جا چکی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ چاروں صوبوں کی مجموعی طور پر 114 جیلوں میں گنجائش سے زیادہ یعنی 19 ہزار 515 قیدی موجود ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق محتسب کی رپورٹ کے مطابق جیلوں میں مجموعی طور پر 77 ہزار 275 قیدی موجود ہیں جن میں صرف 55 ہزار 742 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے 514 قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے انہیں رہا کردیا

فراہم کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 42 جیلوں میں 47 ہزار 77 قیدی ہیں جبکہ جگہ کے اعتبار سے صرف 32 ہزار 77 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

علاوہ ازیں سندھ کی 24 جیلوں میں 17 ہزار 239 قیدی ہیں جبکہ ان جیلوں میں 13 ہزار 38 قیدیوں سے زیادہ رکھنے کی گنجائش نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے جیل میں خراب حالات کے بارے میں از خود نوٹس کیس میں وفاقی محتسب کو قیدیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کام سونپا تھا۔

اس ضمن میں سپریم کورٹ کو مزید بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا کی 37 جیلوں میں 9 ہزار 642 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے لیکن ان میں مجموعی طور پر 10 ہزار 871 قیدی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 11 جیلوں میں 2 ہزار 585 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے جہاں 2 ہزار 88 قیدی ہیں۔

مزید پڑھیں: روسی خواتین قیدیوں کا جیل منتظمہ کے قتل کا ’اعتراف‘

وفاقی محتسب کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے بتایا کہ جیلوں میں ایک ہزار 248 کم عمر قیدی، 25 ہزار 456 سزایافتہ اور 48 ہزار 8 زیر سماعت قیدی ہیں۔

رپورٹ میں محتسب نے بتایا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار 204 خواتین اور 73 ہزار 600 مرد قیدی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دارالحکومت اسلام آباد کے ایچ 16 سیکٹر میں 720 کنال اراضی حاصل کی جاچکی ہے جہاں اسلام آباد ماڈل جیل تعمیر کرنے کی تجویز تھی۔

جیل کے تعمیراتی کام کے بارے میں فزیبلٹی رپورٹ کو پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے اور اس منصوبے پر 9 ارب 90 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جاری کردہ ایک ارب 10 لاکھ روپے کی رقم استعمال کی جا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیمپ جیل میں 3500 قیدیوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جیل حکام

انہوں نے بتایا کہ جیل کے انتظامی حصے، باؤنڈری وال اور مردانہ بیرکوں پر کام جاری ہے اور منصوبہ 30 جون 2020 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔

رپورٹ میں وفاقی محتسب نے سفارش پیش کی کہ وزارت داخلہ اور صوبائی محکمہ داخلہ سینئر افسران کو فوکل پرسن کی حیثیت سے مقرر کریں جو جیلوں کا اچانک دورہ کریں گے۔

وفاقی محتسب کے سکریٹریٹ نے سفارش کی کہ صوبائی حکومتیں ہر ضلعی صدر دفاتر میں جیلیں بنائیں اور ہر جیل میں خواتین اور کم عمر قیدیوں کے لیے الگ اور آزاد حصہ ہونا چاہیے جس میں ہر قیدی کے لیے سونے کی جگہ اور مناسب بیت الخلا ہوں۔

رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ قیدیوں کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے جیلوں میں بائیو میٹرک سسٹم قائم اور حاضری روسٹروں کو جیل میں ریکارڈ اور جیل کے دیگر ریکارڈ کو بھی ٹیکنالوجی سے منسلک کیا جائے۔

وفاقی محتسب نے تجویز دی کہ ذہنی پریشانی میں مبتلا اور ان میں منشیات استعمال کرنے والے قیدیوں کو مناسب علاج مہیا کیا جائے۔

رپورٹ میں ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس والے قیدیوں کو دیگر قیدیوں سے الگ رکھنے کی تجویز دی گئی۔

علاوہ ازیں وفاقی محتسب نے کہا کہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی وزارتیں جیلوں کی بہتری کے لیے ضروری فنڈز اور وسائل مختص کریں اور صوبائی سطح پر قیدیوں کے رضاکارانہ 'عطیہ فنڈ' کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں