مقبول سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کی اپلیکشن چینی حکومت کے احکامات کی پابند نہیں اور اس حوالے سے امریکی تحفظات بے بنیاد ہیں۔

نیویارک ٹائمز سے ایک انٹرویو کے دوران ٹک ٹاک کے سربراہ ایلکس زو نے کہا کہ اگر چین کے صدر شی جن پنگ خود ذاتی طور پر صارفین کے ڈیٹا حوالے کرنے یا پلیٹ فارم سے مواد ہٹانے کا حکم دیں تو ان کی بات ماننے سے انکار کردیا جائے گا۔

گزشتہ برس سے ٹک ٹاک بہت تیزی سے مقبول ہوئی ہے جسے دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زائد بار ڈاﺅن لوڈ کیا جاچکا ہے اور کئی ماہ تک آئی فون میں مفت ایپ چارٹ میں ٹاپ پر رہی۔

مگر چینی ایپ کی مقبولیت کے نتیجے میں امریکا میں اس کے حوالے سے تحفظات بھی سامنے آئے ہیں اور امریکی قانون سازوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی چینی کمپنی بائیٹ ڈانس چینی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر امریکی شہریوں کا ڈیٹا حوالے کرسکتی ہے یا چین کی حکمران جماعت کے خلاف مواد کو سنسر کرسکتی ہے۔

اب امریکی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں ایلکس زو نے کہا 'ٹک ٹاک ڈیٹا صرف کمپنی ہی صارفین کے لیے استعمال کرسکتی ہے'۔

اس ایپ نے تھرڈ پارٹی آڈیٹر، سائبر سیکیورٹی کمپنی کی خدمات حاصل کیں جس نے اس کی ڈیٹا تحفظ کے اقدامات کی تحقیقات کی مگر ڈیٹا شیئرنگ کے شواہد حاصل نہیں کرسکی۔

دوسری جانب وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی جانب سے امریکا میں خود کو ری برانڈ کرنے کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں تاکہ چینی ساختہ کمپنی کے حوالے سے تشویش کو کم کیا جاسکے۔

ٹک ٹاک نے اس حوالے سے الگورتھم میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ چینی صارفین کی ویڈیوز دنیا بھر میں دیگر صارفین کے پاس کم نظر آئیں۔

خیال رہے کہ آنے والے مہینوں میں ٹک ٹاک کی مقبولیت میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ اب یہ صارفین کو اس کے ذریعے کمانے کے فیچرز کی بھی آزمائش کررہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں