افغانستان: طالبان نے 2 غیر ملکی قیدیوں کو رہا کردیا، پولیس

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
21 جون 2017 کو طالبان نے دونوں پروفیسرز کی ویڈیو جاری کی تھی—فائل فوٹو: اے پی
21 جون 2017 کو طالبان نے دونوں پروفیسرز کی ویڈیو جاری کی تھی—فائل فوٹو: اے پی

افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے حکومت سے تبادلوں کے معاہدے کے تحت جنوبی افغانستان میں 2016 میں قید کیے گئے 2 غیرملکی پروفیسرز کو رہا کردیا۔

مقامی پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ 'آج صبح 10 بجے امریکی یونیورسٹی کے 2 پروفیسرز کو زابل صوبے کے ضلع نوبہار میں رہا کردیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رہا کیے گئے دونوں افراد کو امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے صوبے سے باہر لے جایا گیا'۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'دونوں پروفیسرز کو باحفاظت رہا کیا گیا'۔

واضح رہے کہ امریکی اور آسٹریلوی پروفیسرز کو 3 طالبان رہنماؤں کے بدلے رہا کیا گیا۔

دوسری جانب صوبے میں 3 طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا کے کیون کنگ اور آسٹریلیا کے ٹموتھی ویکس کو رہا کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ التوا کا شکار

تاہم افغانستان میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے اس پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اس سے قبل افغان حکومت نے طالبان کے 3 قیدیوں کو رہا کرکے قطر بھیج دیا تھا، رہائی پانے والے افراد میں حقانی نیٹ ورک کے قائد اور طالبان کے ڈپٹی سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی بھی شامل تھے۔

طالبان نے ان کے افراد کے قطر پہنچنے تک 2 پروفیسرز کو افغان حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے افغان حکومت اور صدر اشرف غنی نے طالبان رہنماؤں کی مشروط رہائی کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ 'یہ بہت مشکل فیصلہ تھا تاہم انہیں ایسا افغان عوام کے مفاد میں کرنا پڑا'۔

کیون کنگ اور ٹموتھی ویکس کو طالبان نے 2016 میں کابل میں امریکی یونیورسٹی کے باہر سے حراست میں لیا تھا جہاں وہ دونوں استاد کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

اسی سال طالبان نے 2 ویڈیوز جاری کی تھیں جن میں گرفتار افراد کو دیکھا جاسکتا تھا۔

جنوری 2017 میں جاری ہونے والی ایک اور ویڈیو میں وہ کمزور دکھائی دے رہے تھے تاہم بعد ازاں جاری ہونے والی ویڈیو میں دونوں افراد صحت مند دکھائی دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: صدارتی انتخاب کے نتائج ایک بار پھر ملتوی

ویڈیو میں پروفیسرز کی رہائی کی ڈیڈ لائن اسی سال 16 جون کو بتائی گئی تھی، ساتھ ہی ویڈیو میں دونوں کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان نے بہت اچھے سے رکھا تاہم وہ قیدی ہیں اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انہیں رہائی دلوائے۔

جس کے بعد امریکی حکام نے کہا تھا کہ امریکی فورسز نے ان دونوں کی رہائی کے لیے ریسکیو آپریشن کا آغاز کردیا تاہم چھاپے کے مقام پر یہ دونوں نہیں پائے گئے تھے۔

علاوہ ازیں افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی کا کہنا تھا کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائین نے اشرف غنی کو پیر کے روز فون کرکے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بات کی تھی۔

افغان ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اشرف غنی نے مائیک پومپیو سے گفتگو میں کہا کہ وہ کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی چاہتے ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بیان کے مطابق مائیک پومپیو نے اشرف غنی کو کہا کہ واشنگٹن تشدد کو روکنے کے لیے پر عزم ہے۔

ادھر ماہرین کا ماننا ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور تبادلہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بحالی کی کوشش ہوسکتی ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال ستمبر کے مہینے میں امریکا، طالبان سے معاہدے کے قریب تر پہنچ چکا تھا تاہم افغان دارالحکومت میں تشدد کی تازہ لہر، جس میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کی وجہ سے امریکی صدر نے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

وزیر اعظم کا خیر مقدم

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے افغانستان میں پروفیسرز کی رہائی کا خیر مقدم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رہائی ممکن بنانے کے اقدامات قابل تحسین ہیں، پاکستان۔ افغانستان میں امن کاخواہاں ہے اور امن کی کوششیں جاری رکھے گا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں