ہندوستان: اسکول کے بچوں کی ہلاکت پر پرنسپل گرفتار
پٹنہ: ہندوستانی پولیس نے بدھ کے روز زہرہلہ کھانا کھانے سے 23 بچوں کی ہلاکت کے واقعے کے الزام میں اسکول کے پرنسپل کو گرفتار کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ 16 جولائی کو بہار کے ایک گاؤں میں پیش آنے والے واقعے کے دوران طلبہ کھانا کھانے کے چند منٹ بعد ہی بیمار پڑنا شروع ہوگئے تھے جبکہ متعدد ابھی بھی زیر علاج ہیں۔
سرن ضلع کے پولیس چیف سجیت کمار کا کہنا ہے کہ ’پرنسپل نے خود کو قانون کے حوالے کردیا اور ہم نے انہیں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کرلیا ہے‘
بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کرتے ہوئے پولیس چیف کا کہان تھا کہ چارجز فائل کرنے سے قبل ان سے پوچھ گچھ کرنا ضروری ہے۔
سرن کے ضلعی ایڈمنسٹریٹر ابھیجیت سنہا نے اے ایف پی کو بتایا اسکول کی ایک استاد کی تلاش ابھی جاری ہے جن سے اہم معلومات ملنے کی توقع ہے۔
اس سے قبل بہار کے وزیر تعلیم پی کے شاہی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بتدائی تحقیقات کے مطابق، کھانے میں کیڑے مار دوا کے اجزاء پائے گئے ہیں۔
وزیر کا مزید کہنا تھا کہ کھانا جان بوجھ کر زہریلا بنایا گیا تھا یا یہ کام غلطی سے ہوا، اسکی معلومات مزید تحقیقات کے بعد ہی سامنے آسکیں گی۔
چار سے دس سال عمر کے درمیان بیس بچوں کو اسکول کے قریب ہی گزشتہ بدھ کے روز سپرد خاک کردیا گیا ہے۔
ہلاکتوں کے بڑھنے کے ساتھ ہی سینکڑوں مظاہرین نے واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ہندوستان اس وقت بچوں کے لیے مفت کھانے کا دنیا میں سب سے بڑا منصوبہ چلا رہا ہے۔
ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے متعدد میں اسکول کے دوران بچوں میں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔
بہار ہندوستان کی غریب ترین ریاست میں سے ایک ہے جبکہ اسکی آبادی پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
مفت کھانا غریب خاندانوں میں بہت مقبول ہے جبکہ ایجوکیٹرز اسے اسکول میں حاضری بڑھانے کے ایک ذریعے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ یہ اسکیم دہائیوں سے ہندوستان میں جاری ہیں۔
تاہم کھانے کے خراب معیار کے باعث بچے پیٹ سے متعلق بیماریوں کا اکثر شکار ہوجاتے ہیں۔
یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں غذائیت کی کمی کا شکار بچوں میں سے ہر تیسرے بچے کا تعلق ہندوستان سے ہے جن میں سے 47 فیصد تین سال سے کم عمر کے ہیں۔