پاکستان کرکٹ ٹیم جہاں اپنے کھیل میں عدم تسلسل کی وجہ سے مشہور ہے، وہیں اس کا ایک اور طرۂ امتیاز تواتر کے ساتھ کم ترین عمر میں کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر موقع دینا بھی ہے۔

اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو پاکستان کی طرف سے اب تک 35 ایسے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے جن کی عمریں 20 سال سے بھی کم تھیں، اور ان میں سے بھی 4 کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے 16 سال یا اس سے بھی کم عمر میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔

اب ایسا بھی نہیں کہ ہم اس حوالے سے صرف مقامی سطح پر کوئی اعزاز حاصل کررہے ہیں، بلکہ اس میدان میں تو ہم عالمی اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے میں حسن رضا نے ہمارا پورا پورا ساتھ دیا کیونکہ انہوں نے محض 14 سال اور 227 دن کی عمر میں فیصل آباد کے مقام پر زمبابوے کےخلاف ٹیسٹ میچ کھیل کر دنیا کے کم عمر ترین ٹیسٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔

حسن رضا سے پہلے یہ اعزاز مشتاق محمد کے پاس تھا جنہوں نے لاہور کے مقام پر 15 سال اور 224 دن کی عمر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کھیل کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کا ٹین ایجرز کو ٹیسٹ کیپ دینے کے جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے دنیا کے 10 کم عمر کھلاڑیوں میں سے 6 کا تعلق پاکستان سے ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ایسا جنون ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا، اور اس گروپ میں تازہ شامل ہونے والے نسیم شاہ ہیں جنہوں نے آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں صرف 16 سال اور 270 دن کی عمر میں ڈیبیو کیا ہے۔

اپنے پہلے ہی میچ میں پرفارم کیے بغیر نسیم شاہ ریکارڈ یافتہ یوں بھی ہوگئے ہیں کہ وہ آسٹریلوی سرزمین پر ڈیبیو کرنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بن گئے۔ نسیم سے پہلے یہ اعزاز آئن گریک کے پاس تھا جنہوں نے گزشتہ صدی میں میلبورن کے مقام پر 17 سال کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا۔

نوجوان نسیم شاہ کو وقار یونس ٹیسٹ کیپ پہنا رہے ہیں—فوٹو: ٹوئٹر
نوجوان نسیم شاہ کو وقار یونس ٹیسٹ کیپ پہنا رہے ہیں—فوٹو: ٹوئٹر

اگر آپ نسیم شاہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تو آپ کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ اپنے پہلے ٹیسٹ میچ سے پہلے اس نوجوان فاسٹ باؤلر نے صرف 7 فرسٹ کلاس میچ کھیلے ہیں۔

اس خوشگوار آغاز کی خوشی اپنی جگہ، مگر آگے آنے والا وقت نسیم شاہ اور ان جیسے تمام نوجوانوں کے لیے بہت اہم بھی ہے اور نازک بھی، خاص کر ان کھلاڑیوں کو اپنی فٹنس پر بھرپور توجہ دینی ہوگی، کیونکہ ماضی میں بہت سے نوجوان فاسٹ باؤلرز مسلسل انجریز یا غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جس کی ان سے توقع کی گئی تھی۔

نسیم شاہ کے تابناک مستقبل کی امید رکھتے ہوئے ہم اپنے قارئین کے لیے چند ایسے کھلاڑی کے کرکٹ کیریئر کا ایک تعارف پیش کر رہے ہیں جنہوں نے کم عمری میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔ ویسے تو یہ فہرست کافی طویل ہے، لیکن چونکہ نسیم شاہ فاسٹ باؤلر ہیں اس لیے ہم نے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 5 باؤلرز کا ہی انتخاب کیا ہے، ایسے فاسٹ باؤلرز جنہوں نے کم ترین عمر میں منتخب کیے جانے سے متعلق فیصلے کو بالکل ٹھیک ثابت کیا۔

عمران خان

پاکستان کے سابق کپتان اور موجودہ وزیرِاعظم عمران خان بھی ان کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی 19ویں سالگرہ سے قبل ہی ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھ دیا تھا۔ عمران خان نے برمنگھم کے مقام پر جون 1971ء میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں اپنا ڈیبیو کیا، لیکن یہ ابتدائی ٹیسٹ ان کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا۔

اس میچ میں پاکستان کی واحد اننگ میں وہ صرف 5رنز بناکر رن آؤٹ ہوگئے جبکہ باؤلنگ میں وہ 28 اوورز میں کوئی بھی وکٹ حاصل نہیں کرسکے تھے۔ یہ کارکردگی بورڈ کے ذمہ داران کو اتنی بُری لگی کہ پھر عمران خان کو اگلی بار ٹیم کی نمائندگی کے لیے 3 سال انتظار کرنا پڑا۔

عمران خان کے ٹیسٹ کیریئر کو 1976ء میں اس وقت عروج ملا جب انہوں نے دورہ آسٹریلیا میں سڈنی کے مقام پر 165رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کیں اور آسٹریلوی سرزمین پر قومی ٹیم کو پہلی جیت دلوانے میں اہم ترین کردار نبھایا۔

عمران خان طویل اسپیل کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کررہے ہیں
عمران خان طویل اسپیل کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کررہے ہیں

80ء کی دہائی کے اوائل میں عمران خان کا کیریئر اپنے جوبن پر تھا۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف 83ء-1982ء میں پاکستان میں کھیلی جانے والی 5 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز میں 39 وکٹیں حاصل کرکے انہوں نے سب کو حیران کردیا۔

عمران خان ملکہ ایلزبتھ سے مصافحہ کررہے ہیں—فوٹو: wikibio.in
عمران خان ملکہ ایلزبتھ سے مصافحہ کررہے ہیں—فوٹو: wikibio.in

بطور کھلاڑی ہی نہیں، بطور کپتان بھی عمران خان نے ٹیسٹ کرکٹ میں کئی اعزاز حاصل کیے۔ وہ پاکستان کے واحد کپتان ہیں جنہوں نے بھارت کو بھارت میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی جبکہ انگلستان میں ٹیسٹ سیریز جیتنے والے بھی وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے۔ جبکہ 1980ء کے وسط سے 1990ء کے اوائل تک عمران خان کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کی ناقابلِ شکست ٹیم کے ساتھ 3 مسلسل ٹیسٹ سیریز برابر کھیل کر پاکستان نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔

وسیم اکرم

وسیم اکرم نے 18 سال 236 دن کی عمر میں آکلینڈ کے مقام پر جنوری 1985ء میں اپنے کیریئر کے آغاز کیا۔ اپنے ٹیسٹ ڈیبیو سے محض چند ماہ قبل پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ ٹیم کیخلاف پاکستان کی ’اے‘ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے 7 وکٹیں حاصل کرکے سلیکٹرز کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروالی تھی، لہٰذا جب دورہ نیوزی لینڈ کے لیے ٹیم کا اعلان ہوا تو صرف 3 فرسٹ کلاس میچوں کا تجربہ رکھنے والے وسیم اکرم ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔

وسیم اکرم بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرنے والے ایک منفرد باؤلر تھے۔ عمران خان کی طرح وہ بھی اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں نمایاں کارکردگی پیش نہیں کرسکے لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مزید تاخیر نہیں کی اور اسی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انہوں نے 128رنز دے کر 10 وکٹیں حاصل کیں اور دنیا کو بتا دیا کہ کرکٹ کے افق پر ایک ایسا ستارہ ابھرا ہے جو طویل عرصے تک روشن رہے گا۔

وسیم اکرم کا کمال یہ ہے کہ ان کو دنیائے کرکٹ کے تمام نامور بیٹسمین مشکل ترین باؤلر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے پاکستان کے لیے متعدد موقعوں پر یقینی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا۔ وسیم اکرم نے باؤلنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی کارکردگی دکھائی اور انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں 3 سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہے، جن میں سے ایک یادگار ڈبل سنچری بھی ہے۔

وسیم اکرم پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے باؤلر ہیں اور وہ واحد باؤلر ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں 2 مرتبہ ہیٹ ٹرک کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ 104 ٹیسٹ میچوں میں 23.62 کی اوسط سے 414 وکٹیں حاصل کرکے وہ اس طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلر ہیں۔

اگر 1960ء سے 1980ء تک کی بات کی جائے تو نوجوان تیز باؤلنگ میں فضل محمود، خان محمد، سرفراز نواز، عمران خان اور دیگر کو اپنا رول ماڈل مانتے تھے لیکن 1990ء کی دہائی سے اب تک نوجوانوں نے وسیم اکرم کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کردیا اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس بائیں ہاتھ سے تیز رفتار باؤلنگ کرنے والوں کی ایک کھیپ موجود ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ایسا ماحول پیدا کرے گا کہ نوجوان فاسٹ باؤلرز کو وسیم اکرم کے تجربے سے سیکھنے کا موقع ملے۔

وقار یونس

یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں وسیم اکرم کا نام آتا ہے وہاں وہاں وقار یونس کا ذکر لازم ہوجاتا ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نومبر 1989ء میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ اس حوالے سے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس میں 2 بڑے اور عظیم کھلاڑیوں نے ایک ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے وقار یونس اور بھارت کی جانب سے سچن ٹنڈولکر۔ اس وقت وقار یونس کی عمر 17 برس اور 364 دن تھی تو ٹنڈولکر کی عمر 16 سال اور 205 دن۔

وقار یونس کی قومی ٹیم میں سلیکشن کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے سپر وِلز کپ کے میچ میں دہلی کے مقابلے میں وقار یونس یونائیٹڈ بینک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ میچ پاکستان ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا جا رہا تھا۔ عمران خان جو اس وقت قومی ٹیم کے کپتان تھے انہوں نے ٹیلی ویژن پر یہ میچ دیکھ کر وقار یونس کو فوری قومی ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت تک وقار نے صرف 6 فرسٹ کلاس میچز کھیلے تھے اور اگر اس اہم میچ میں سلیم جعفر کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا تو شاید قومی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے ان کو مزید انتظار کرنا پڑتا۔

وکٹ لینے کے بعد وقار یونس اور وسیم اکرم خوشی مناتے ہوئے—فوٹو اے ایف پی
وکٹ لینے کے بعد وقار یونس اور وسیم اکرم خوشی مناتے ہوئے—فوٹو اے ایف پی

بس پھر شارجہ میں وقار یونس نے متاثر کن کارکردگی پیش کی اور ٹیسٹ کرکٹ کا ٹکٹ بھی حاصل کرلیا۔ اپنے پہلے ٹیسٹ کی پہلی ہی اننگ میں وقار یونس نے 4 وکٹیں حاصل کیں، لیکن بدقسمتی سے دوسری اننگ کے دوران وقار زخمی ہونے کی وجہ سے باؤلنگ نہیں کرسکے اور ان کی غیر موجودگی نے مہمان ٹیم کے لیے ٹیسٹ ڈرا کرنا ممکن بنا دیا۔

وسیم اکرم کی طرح وقار یونس نے بھی پاکستان کو متعدد یادگار فتوحات دلوائی ہیں۔ وقار یونس ان منفرد باؤلرز میں شامل ہیں جو تیز رفتار باؤلنگ کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بیٹسمنوں کے سر کے بجائے ان کے پیروں کو اپنے نشانے پر رکھتے تھے۔ ان کی یارکرز کو کرکٹ کے تجزیہ کار Toe Crusher کہتے تھے۔

عاقب جاوید

عاقب جاوید پاکستان کا ایک اور بڑا نام ہے، اور انہوں نے بھی صرف 16 سال 189 دن کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ ویلنگٹن کے مقام پر کھیلا۔ اگرچہ عاقب جاوید بہت ہی کم عمر میں ٹیم کا حصہ بن گئے تھے مگر مستقل سلیکٹ ہونے کے لیے ان کا اصل مقابلہ وسیم اکرم اور وقار یونس سے تھا اس لیے ان کو بہت زیادہ موقع نہیں مل سکا اور یوں انہوں نے اپنے 9 سال پر محیط ٹیسٹ کیریئر میں صرف 22 ٹیسٹ میچ کھیلے۔

ویسے یہاں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں بہت سے کھلاڑیوں کو ٹیم میں جلدی شمولیت کا فائدہ ہوتا ہے، وہیں عاقب جاوید ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کو شاید قومی ٹیم میں کم عمری میں شمولیت کی وجہ سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

1988ء کی ایک یادگار تصویر جب عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید خوشگوار موڈ میں نظر آرہے ہیں
1988ء کی ایک یادگار تصویر جب عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید خوشگوار موڈ میں نظر آرہے ہیں

ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے میں ایک روزہ کرکٹ میں عاقب جاوید کا ریکارڈ بہتر ہے۔ اس طرز کی کرکٹ میں انہوں نے 163 میچوں میں 182 وکٹیں حاصل کی ہیں۔

محمد عامر

محمد عامر نے 2009ء میں 17 سال کی عمر میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ عامر کا کمال یہ تھا کہ وہ پہلے ہی میچ سے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں انہوں نے 6 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

قدرتی صلاحیتوں سے مالامال اس کھلاڑی کا مستقبل تابناک تھا لیکن اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں ہونے والی سزا نے عامر کو ایک طویل عرصے تک کرکٹ کے میدانوں سے دُور رکھا۔

قدرتی صلاحیتوں سے مالامال عامر کا مستقبل تابناک تھا مگر اسپاٹ فکسنگ نے ایسا ہونے نہیں دیا
قدرتی صلاحیتوں سے مالامال عامر کا مستقبل تابناک تھا مگر اسپاٹ فکسنگ نے ایسا ہونے نہیں دیا

اگرچہ اپنی سزا پوری کرکے عامر بین الاقوامی کرکٹ میں واپس تو ضرور آگئے، لیکن اب ان میں نہ وہ رنگ نظر آتا ہے اور نہ ان کے پاس اب وہ رفتار رہی ہے اور نہ سوئنگ۔ پھر ایک اور نقصان ٹی20 لیگز نے کردیا ہے، کیونکہ وہاں کم محنت میں زیادہ پھل مل رہا ہے اس لیے اب کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ کے بجائے ان لیگز کو ہی اہمیت دے رہے ہیں، اور عامر نے بھی یہی کیا۔

محض 27 سال کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر انہوں نے واضح طور پر ٹی20 لیگ میں زیادہ کشش ہونے کا ثبوت دے دیا۔ عامر نے اپنے مختصر ٹیسٹ کیریئر کے دوران 36 ٹیسٹ میچ کھیلے اور ان میں 119 وکٹیں حاصل کیں۔


جہاں پاکستان کرکٹ نے متعدد کھلاڑیوں پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بہت جلد کھول دیے وہاں تابش خان اور صدف حسین جیسے متعدد ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو سالہا سال سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں کارکردگی دکھانے کے باوجود قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام ہیں۔

اس لیے بس یہاں یہی امید کی جاسکتی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی جلد سے جلد اہمیت ملنا شروع ہو، اور وہاں جو لڑکے مستقل اچھا کھیل پیش کررہے ہیں، ان کو بھی موقع دے کر یہ پیغام تمام ہی کھلاڑیوں کو پہنچا دیا جائے کہ جو اچھا کھیلے گا، وہ ٹیم میں آئے گا، یہاں پسند اور ناپسند کا کوئی معاملہ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Masood Ahmed Nov 22, 2019 12:22pm
ایک تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔عمران خان نے ۱۹۸۲-۸۳کی پاک بھارت سیریز میں چھ میچوں میں ۴۰ وکٹیں لی تھیں۔
raja kamran Nov 22, 2019 03:51pm
it is very informative and very well written.