پیپلزپارٹی پارلیمان میں سب سے زیادہ ' ہتھیار 'رکھنے والی سیاسی جماعت

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2019
پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کے پارلیمنٹ اور تینوں صوبائی اسمبلی کے اراکین کے پاس ہتھیار ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کے پارلیمنٹ اور تینوں صوبائی اسمبلی کے اراکین کے پاس ہتھیار ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) پارلیمان میں سب سے زیادہ ہتھیار رکھنے والی سیاسی جماعت بن گئی اور پارلیمان کے ان 100 اراکین میں سے 50 کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے جنہوں نے اپنے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کیے تھے۔

سال 2018 کے لیے قانون سازوں کے اثاثوں کی معلومات کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کے پارلیمنٹ اور تینوں صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کے پاس ہتھیار ہیں۔

پیپلزپارٹی کے علاوہ اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے والے 20 قانون سازوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، 5 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ(ن)، 5 کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور 4 کا بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔

مزید پڑھیں: اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں میں 'ممنوعہ ہتھیاروں' کی موجودگی کا انکشاف

وہ افراد جنہوں نے اپنے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کیے ان میں قومی اسمبلی کے 19 اراکین ہیں، جن میں سے 6 کا تعلق پی ٹی آئی، 6 پیپلزپارٹی، 2 مسلم لیگ(ن)، 2 متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، ایک جی ڈی اے، ایک متحدہ مجلس عمل سے ہے جبکہ اس میں ایک آزاد امیدوار بھی شامل ہے۔

اپنے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے والے ارکان اسمبلی میں سابق صدر آصف علی شامل ہیں، جن کے پاس سب سے زیادہ ہتھیار موجود ہیں اور انہوں نے ایک کروڑ 66 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار ظاہر کیے ہیں لیکن ان کی نوعیت نہیں بتائی۔

سینیٹ

سینیٹ میں مجموعی طور پر 10 اراکین نے اپنے ہتھیار ظاہر کیے، جن میں سے 2 کا تعلق پیپلزپارٹی، 2 کا تحریک انصاف، 2 کا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، 2 کا نیشنل پارٹی، ایک کا مسلم لیگ(ن) اور ایک رکن آزاد ہے۔

ان اراکین میں پیپلزپارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا اور گیان چند، پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر اعظم سواتی اور ڈاکٹر شہزاد وسیم، نیشنل پارٹی کے محمد اکرم اور کبیر احمد شاہ، مسلم لیگ(ن) کے عثمان کاکڑ، سردار اعظم موسیٰ خیل(مرحوم)، آغا شاہ زیب درانی اور آزاد رکن سردار شفیق ترین شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی

ادھر سندھ اسمبلی میں 47 اراکین نے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کیے ہیں، جن میں سے 40 کا تعلق پیپلزپارٹی، 4 کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، 2 کا تحریک انصاف اور ایک کا تعلق پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ہے۔

سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن نواب سردار خان چانڈیو کے پاس سب سے زیادہ 60 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار موجود ہیں، جس کے بعد سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن 25 لاکھ روپے کے ہتھیاروں کے مالک ہیں۔

پیپلزپارٹی کے دیگر اراکین جن کے ہتھیاروں کی مالیت 10 لاکھ روپے سے زائد ہے، ان میں سابق وزیر داخلہ میر نادر علی مگسی ، علی حسن، فریال تالپور جبکہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ شامل ہیں۔

پیپلزپارٹی کے رکن ملک اسد سکندر کے پاس 24 ہتھیار ہیں، جن میں 19 رائفلیں، 3 شاٹ گنز اور 2 پستول شامل ہیں، ان کی مالیت 10 لاکھ روپے ہیں، اس کے علاوہ پی پی کے رکن نور احمد کے پاس 13 ہتھیار ہیں جن میں رائفلیں، شاٹ گنز اور پستول شامل ہیں۔

علاوہ ازیں صوبائی وزیر برائے معدنیاتی ترقی میر شبیر علی بجارانی کے پاس 12 جبکہ رانا ہمیر سنگھ کے پاس 10 ہتھیار ہیں، اسی طرح خان محمود ڈہری کے پاس 7، فقیر شیر محمد کے پاس 5 اور جام خان شورو کے پاس 4 ہتھیار ہیں۔

پنجاب اسمبلی

پنجاب اسمبلی میں اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے والے 10 اراکین میں سے 7 کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، 2 کا تعلق مسلم لیگ(ن) اور ایک کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے میں اراکین سندھ اسمبلی سب سے آگے

دلچسپ بات یہ ہے کہ 10 میں سے 4 اراکین کا تعلق ضلع رحیم یار خان سے ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان صمصام بخاری کے پاس رائفلز اور شاٹ کی غیر متعین تعداد موجود ہے اور یہ تمام انہیں ورثے یا تحائف میں ملی ہیں۔

اس کے علاوہ سابق وفاقی وزیر سردار اویس خان لغاری کے پاس بھی وراثتی ہتھیاروں کی غیر متعین کردہ تعداد موجود ہے۔

اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کرنے والے تحریک انصاف کے دیگر اراکین میں رضا حسین بخاری، میاں شفیع محمد، محمد اعجاز حسین اور محمد احسن جہانگیر شامل ہیں۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ(ن) کے محمد ارشد جاوید کے پاس 5 ہتھیار جبکہ رانا محمد اقبال کے پاس 7 لاکھ روپے کے ہتھیار موجود ہیں۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے غضنفر علی خان کے پاس 2 رائفلیں ہیں جن میں سے ایک 7.62 ایم ایم اور دوسری 9 ایم ایم ہے۔

بلوچستان اسمبلی

بلوچستان اسمبلی میں 8 ارکان نے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کیے ہیں، جن میں سے 4 کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے، ایک کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، ایک کا بی این پی-اے جبکہ ایک کا تعلق ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔

علاوہ ازیں ایک آزاد رکن اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کیتھران کے پاس 13 کلاشنکوف رائفلز ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن میر سکندر علی کے پاس 10 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار موجود ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن سلیم احمد کے پاس 7 لاکھ کے ہتھیار، بی اے پی کے ضیااللہ کے پاس 6 ہتھیار جبکہ میر محمد خان لہری کے پاس 4 لاکھ 70 ہزار روپے کے ہتھیار موجود ہیں۔

فہرست میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اختر حسین، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سید احسان شاہ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی

مزید برآں کے پی اسمبلی کے جن اراکین نے اثاثوں میں ہتھیار ظاہر کیے ہیں ان میں سے 3 کا تعلق تحریک انصاف، ایک کا تعلق پیپلزپارٹی، ایک کا عوامی نیشنل پارٹی سے ہے جبکہ ان میں ایک آزاد رکن بھی شامل ہے۔

خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر اکبر ایوب خان کے پاس 3 ہتھیار ہیں، جن میں ایک ریپیٹر رائفل اور 2 پستول شامل ہیں جبکہ ان میں ایک گلوک 9 ایم ایم ہے۔

اکبر ایوب خان کے بھائی ارشد ایوب خان جو دوسرے حلقے سے منتخب ہوئے تھے ان کے پاس 9 ہتھیار ہیں، جن میں 3 رائفلیں، 2 شاٹ گنز اور 4 پستولیں اور ریوالور شامل ہیں، ان میں ایک روسی ساختہ 9 ماکاروو شامل ہے۔

اسی طرح کے پی کے اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان کے پاس 4 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار موجود ہیں۔

علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے محمد لائق خان کے پاس 40 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار ہیں، دیگر اراکین میں پیپلزپارٹی کے تاج محمد اور آزاد رکن امجد خان شامل ہیں جنہوں نے ساڑھے 5 لاکھ روپے مالیت کے ہتھیار اپنے اثاثوں میں ظاہر کیے ہیں۔


یہ خبر 22 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں