'عوام کے اعتماد کے لیے ججز کا احتساب بھی ضروری ہے'

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2019
جسٹس عمر عطا بندیال کی  سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو/اے ایف پی
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو/اے ایف پی

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ عوام کے اعتماد کے لیے ججز کا احتساب بھی ضروری ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 'جج احتساب سے مبرا نہیں ہوتا، اس نے حلف اٹھایا ہے'۔

مزید پڑھیں: ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی، جسٹس عمر عطا بندیال

ان کا کہنا تھا کہ 'حلف کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں، جب احتساب ججز کا ہو تو عام شہریوں کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا'۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ 'ججز کے حوالے سے مواد جمع کرنے کی مجاز اتھارٹی صدر مملکت ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایسٹ ریکوری یونٹ ججز کی فائل نہیں بنا سکتا'۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 'ہم عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑے ہیں، لیکن عدلیہ پر عوام کا اعتماد بھی ہونا ضروری ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عوام کے اعتماد کے لیے ججز کا احتساب بھی ضروری ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری جوابدہی کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے'۔

انہوں نے وکیل دفاع سے دلائل کا وقت طلب کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اگلے ہفتے تک سماعت ملتوی کرتے ہیں، آپ کس وقت دلائل دینا چاہتے ہیں'، جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ساڑھے 11 کا وقت ہی مناسب رہے گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 نومبر ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس 10 رکنی بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں