لندن: مرض کی تشخیص کیلئے نواز شریف کا پی ای ٹی اسکین

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
نواز شریف  19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے— فائل فوٹو: ٹوئٹر
نواز شریف 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے— فائل فوٹو: ٹوئٹر

لندن: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجوہات جاننے کے لیے ڈاکٹروں کی تجویز پر ان کا پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (پی ای ٹی) اسکین کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کی کہ لندن برج ہسپتال میں گائز کیئر سینٹر میں نواز شریف کا پی ای ٹی اسکین ہوا۔

ڈاکٹر عدنان شیخ نے کہا کہ 'تھرمبوسائٹو پینیا کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے یہ اہم ترین ٹیسٹ میں سے ہے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ پی ای ٹی اسکین سے نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی کی وجوہات واضح طور پر معلوم ہوں گی جس کے بعد ان کی ہارٹ سرجری کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: لندن: نوازشریف کے بون میرو ٹیسٹ پر اہلخانہ کو تشویش

پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی اسکین ایک امیجنگ ٹیسٹ ہے، جس کے ذریعے ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص کے لیے مریض کے جسم کا تھری ڈائیمینشنل اسکین کرتے ہیں۔

اسکین میں ریڈیو ایکٹو ٹریسرز پر مبنی خصوصی ڈائی استعمال کی جاتی ہے، جسے مریض کے جسم میں سانس یا انجیکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے۔

خون کے بہاؤ، آکسیجن کی مقدار، اعضا یا ٹشوز کی کارکردگی جانچنے کے لیے پی ای ٹی اسکین کی تجویز دے سکتے ہیں۔

تاہم پی ای ٹی اسکین عموماً کینسر کی تشخیص کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹرز اسے جسم کے ٹشوز میں سوزش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھی تجویز کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے اپنے والد کے بون میرو ٹیسٹ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ انہیں امریکا کے ایک معیاری ہسپتال لے جانا پڑے گا تاکہ ان کی دیگر بیماریوں کا علاج ہوسکے'۔

حسین نواز نے کہا تھا کہ ’میں نے نواز شریف سے متعدد مرتبہ اس حوالے سے بات کی لیکن ان کے لیے ابھی فیصلہ کرنا قبل از وقت ہے کیونکہ لندن میں اب بھی ان کے ٹیسٹ جاری ہیں‘۔

نواز شریف کی خرابی صحت سے روانگی تک

واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کو صحت کی تشویشناک صورتحال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس نے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابلِ علاج ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعدازاں شہباز شریف کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف نومبر ہسپتال سے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا منتقل ہوئے جہاں انہیں گھر میں قائم آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔

8 نومبر کو شہباز شریف وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا اور نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد 18 نومبر کو وزارت داخلہ نے نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔

جس کے بعد وہ 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں