قومی اسمبلی میں بھارت کے ‘مسلم مخالف’ قانون کے خلاف قرارداد منظور

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2019
قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی گئی—فائل/فوٹو:اے پی پی
قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی گئی—فائل/فوٹو:اے پی پی

قومی اسمبلی میں بھارت کی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی قانون سازی کی مذمت کرتے ہوئے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف قرارداد متقفہ طور پر منظور کرلی گئی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے قرارداد پیش کی جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو خارج کرکے صرف ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت دینے کے متنازع قانون کی مذمت کی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن ایاز صادق نے قرارداد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت ہے کہ پوری دنیا کو اس ذہنیت کے حوالے سے بتادیا جائے جو صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے بھارت کو تاراج کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں:بنگال میں متنازع شہریت قانون میری لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہوگا، ممتا بینرجی

ان کا کہنا تھا کہ سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھانے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ مسئلے کو پوری دنیا میں اجاگر کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے ہی رکن خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت نے 134 روز قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی اور حکومت پاکستان نے خطے کے لوگوں کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سفارتی سطح پر معذور نظر آرہی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت نے بھارت کی جانب سے کشمیر کے الحاق کو تسلیم کرلیا ہے’ لیکن پاکستان کے عوام نے ان تمام مبینہ اقدامات کو تسلیم نہیں کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن ڈاکٹر درشن نے کہا کہ پاکستان کی پوری ہندو برادری بھارتی وزیراعظم مودی کے اس قدم کی مذمت کرتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما حنا ربانی کھر نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کیا جائے اور دونوں مسئلوں پر بحث کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

بھارت کی کئی ریاستوں نے اس متنازع قانون کو نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔

بھارتی پولیس نے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں بے دردی سے طلبہ کو نشانہ بنایا جہاں کئی طالب علم زخمی ہوگئے۔

سوشل میڈیا میں طلبہ پر ہونے والے تشدد کی ویڈیوز بھی وائرل ہورہی ہیں جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی پولیس طلبہ پر تشدد کررہی ہے اور آنسو گیس کے شیل بھی فائر کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں