اسلام آباد: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین خالد مرزا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی جانب سے جاری حالیہ بیان میں اپنے اور ایس ای سی پی پالیسی بورڈ کے خلاف عائد الزامات کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خالد مرزا نیب اور ایف آئی اے میں کام کرنے والے ایس ای سی پی کے تمام افسران کو واپس بلانے کے حق میں ہیں جو مختلف معاملات اور تحقیقات میں ان سے تعاون کررہے ہیں اور ایس ای سی پی کو اس سلسلے میں کوئی طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: نیب قانون کی قلابازی اور ہمارے ادارے

صورتحال اس وقت سنگین موڑ اختیار کر گئی جب ایس ای سی پی نے 2 دسمبر کو نیب کو مراسلہ لکھا جس میں نہ صرف وہاں تعینات اپنے 10 افسران کی واپسی کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی ان افسران پر ایس ای سی پی کے ذریعے آنے والے اخراجات کی ادائیگی کا تقاضہ بھی کردیا۔

دریں اثنا نیب کے ذرائع نے بتایا کہ بیورو کی سینئر انتظامیہ نے ایس ای سی پی کے مراسلے کی مذمت کی جس میں تقریباً 70 کروڑ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔

ایس ای سی پی نے کہا کہ ان کے ملازمین تقریباً دو برس سے نیب میں ڈیپوٹیشن پر نہیں تھے، نیب کے ذریعے افسران کی خدمات متعدد معاملات میں ماہرین کی حیثیت سے طلب کی گئیں جبکہ ان کے اخراجات الاؤنس، ٹی اے / ڈی اے سمیت بونس بھی ایس ای سی پی نے ادا کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب حراستی مراکز تک رسائی کی اجازت نہیں دے رہا، کمیشن برائے انسانی حقوق

کمیشن نے نیب سے مطالبہ کیا کہ وہ ان افسران پر ہونے والے اخراجات برداشت کریں گے کیونکہ وہ احتساب بیورو کی خدمت کررہے ہیں۔

13 دسمبر کو جب ایس ای سی پی پالیسی بورڈ کا کراچی میں اجلاس جاری تھا تو اس دوران نیب نے ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 'چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایس ای سی پی کی شکایت کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین خالد مرزا نے ڈی جی نیب راولپنڈی میں ملازمتوں کے معاملے میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے'۔

دوسری جانب خالد مرزا نے میڈیا کو جاری اپنے رد عمل میں کہا کہ ایس ای سی پی پالیسی بورڈ اپنا عملے کا تقرر نہیں کرتا، کمیشن بطور سیکریٹریٹ بورڈ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بورڈ کو تمام سہولیات کی فراہمی کرتا ہے تاکہ وہ فرائض انجام دے سکے۔

ترجمان نیب نے جواب دیا کہا کہ خالد مرزا کو اس طرح کے معاملات میڈیا تک نہیں لے کر جانا چاہیے اور مسئلہ مناسب فورم پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔

نیب میں کام کرنے والے ایس ای سی پی کے افسران کے بارے میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ تمام محکموں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اگر ایس ای سی پی کی تنخواہیں ڈیبیوٹیشن پر ہوتی تو یہ نیب کو ادا کرنا پڑتیں۔

مزید پڑھیں: قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے آئی پی پیز سے ’زائد‘ منافع پر سوالات

انہوں نے بتایا کہ ایس ای سی پی کے افسران کچھ معاملات میں معاونت کے لیے ادارے کی منظوری کے بعد ہی نیب میں تعینات تھے کیونکہ وہ معاملے کی بنیاد پر مالی جرائم اور کارپوریٹ سیکٹر کے معاملات میں ماہر تھے۔

علاوہ ازیں سینئر عہدیداروں کے علاوہ ایس ای سی پی کے ترجمان نے بھی اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں