حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2019
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی—فوٹو: ڈان نیوز
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع/تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کردی۔

ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہونے والی درخواست کی نقل میں سپریم کورٹ سے مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی جو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے دیا تھا۔

وفاقی حکومت، وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ درخواست گزار ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اگست میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تھی کیونکہ وہ 29 نومبر کو متوقع طور پر ریٹائر ہوجاتے لیکن اس سے قبل ہی وزیراعظم نے ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی تھی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع

تاہم 29 نومبر سے قبل ہی عدالت میں اس توسیع کے خلاف درخواست سامنے آئی جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے سماعت کی اور 26 نومبر کو اس مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد 3 روز تک عدالت میں طویل اور اہم ترین سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 6 ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع/دوبارہ تعیناتی پر قانون سازی کرے اور اس دوران جنرل قمر باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے۔

بعد ازاں اس کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا، جس کے جائزے کے بعد آج حکومت نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی۔

عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے گئے۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ حکم بے ضابطگیوں کا شکار ہے جس نے انصاف کی مدد سے ہونے والے ایک عمل کو ناانصافی کے عمل میں تبدیل کردیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ عدالت نے آئین میں وضع کردہ قوانین کے ساتھ ساتھ 'اہم قوانین' کو بھی 'مکمل طور پر نظر انداز' کیا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ان یقین دہانی کے بعد نومبر میں ایک مختصر فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں اٹارنی جنرل نے واضح انداز میں بیان حلفی دیا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے قانون کے تحت ضابطہ بنایا جائے گا۔

علاوہ ازیں درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ درخواست عوام کے بہترین مفاد میں دائر کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عدالت کو عوامی پالیسی اور مشترکہ مفادات کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے، تفصیلی فیصلہ

مذکورہ درخواست میں کہا گیا کہ مودبانہ طور پر اس عمل کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے کہ مبہم فیصلے میں نمایاں بھول چوک اور واضح غلطیاں ہیں، جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

حکومتی درخواست میں کہا گیا کہ اس تنازع کی نوعیت حقیقت میں منفرد ترین کیسز میں بھی منفرد تھا جس میں معزز عدالت کو مشترکہ مفاد اور عوامی پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ درحقیقت معزز عدالت کا طویل منظور شدہ کنونشنز اور حکومت کی مجوزہ پالیسی کی چھیڑ چھاڑ میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

مذکورہ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت نے کہا کہ منتخب نمائندے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تویسع اور تعیناتی سے متعلق معاملات کا فیصلہ کریں اور یہ لوگ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیے گئے فیصلے کو 'قبول یا مسترد' کرسکتے ہیں۔

تاہم درخواست میں کہا گیا کہ بہت احترام کے ساتھ اس بات کا مطلب ہے کہ یہ تعیناتیاں ان منتخب نمائندوں کے ذریعے کی جانی چاہیے جنہوں نے 7 دہائیوں تک قانون سازی نہ کرکے اس معاملے کو نمٹایا اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں 'بہت احترام کے ساتھ' کہا گیا کہ عدالتی فیصلے میں 'واضح غلطیاں' ہیں اور یہ غلطیاں نمایاں ہیں۔

عدالتی فیصلے میں خامیاں ہیں، معاون خصوصی

علاوہ ازیں اس حوالے سے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ یہ درخواست حکومت کی قانونی ٹیم کی جانب سے فیصلے کے تفصیلی جائزے کے بعد دائر کی گئی اور اس معاملے پر وزیرقانون فروغ نسیم میڈیا کو آگاہ کریں گے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ نظرثانی درخواست اس لیے دائر کی گئی کیونکہ ہماری قانونی ٹیم نے فیصلے کے تمام پہلوؤں کا اچھے طریقے سے جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ فیصلے میں کئی قانونی خامیاں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ نظرثانی درخواست عوام کے مفاد میں دائر کی گئی اور حکومت کے پاس پارلیمنٹ کا جو آپشن تھا وہ اس نظرثانی درخواست دائر کرنے کے بعد بھی موجود رہے گا اور اس پر وزیرقانون تفصیل سے بات کریں گے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں خامیاں اور آئینی اور قانون سقم ہیں اور حکومت ان غلطیوں کی اصلاح چاہتی ہے اور اسی لیے نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

عدالت عظمیٰ کا فیصلہ

خیال رہے کہ 16 دسمبر کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل بھی آرمی چیف ہوسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے اعتراف کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے متعلق بہت سے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔

فیصلے کے مطابق اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے اور ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے، پہلی بار یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا جبکہ پہلی سماعت میں درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن درخواست واپس لینے کے لیے تحریری استدعا کی جس کو عدالت نے رد کیا جبکہ اگلے روز وہ پیش ہوئے اور زبانی درخواست کی تو انہیں عدالت کا حکم سنا دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عوامی دلچسپی کے معاملات پر دی گئی درخواست سے دستبرداری عدالت کی اجازت سے ہوتی ہے۔

اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنی ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے مقررہ مدت میں قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں اگلا قدم کیا ہوگا اس پر بھی وضاحت کردی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کمانڈ، نظم، تربیت، انتظام، تنظیم، فوج کو جنگی تیاری اور جنرل ہیڈکوارٹرز کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر ذمہ دار تصور کرتے ہوئے ہم جوڈیشل ریسٹرینٹ کا مظاہر کررہے ہیں اور آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے کو پارلیمان اور وفاقی حکومت پر چھوڑنا مناسب ہے۔

پارلیمنٹ اور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ایکٹ کے ذریعے آرٹیکل 243 کی وسعت کی وضاحت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بحیثیت آرمی چیف حالیہ تعیناتی مذکورہ قانون سازی سے مشروط ہے اور 6 ماہ تک عہدے کو جاری رکھ سکتے ہیں اور نئی قانون سازی ان کی مدت اور سروس کے حوالے سے دیگر شرائط کی وضاحت کرے گی۔

عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت پارلیمنٹ سے جنرل یا آرمی چیف کی مدت اور دیگر شرائط پر قانون سازی اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے باوجود 6 ماہ کے اندر نہیں کرپائی تو آرمی چیف کے عہدے کو مکمل طور بے ضابطہ اور ہمیشہ کے ایسا نہیں چھوڑا جاسکتا اور یہ آئینی طور پر نامناسب بات ہوگی۔

عدالت عظمیٰ نے واضح کیا تھا کہ پارلیمنٹ سے 6 ماہ کے اندر اس حوالے سے قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر حاضر سروس جنرل کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں