ٹیکس چوری کیلئے جعلی انوائسز استعمال کرنے والا گروہ بےنقاب

27 دسمبر 2019
ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے ٹیکس سے بچنے والوں کا یہ اسکینڈل بے نقاب کیا —فائل فوٹو: اے پی پی
ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے ٹیکس سے بچنے والوں کا یہ اسکینڈل بے نقاب کیا —فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اربوں روپے کی ٹیکس دھوکا دہی میں ملوث جعلی کمپنیوں کے نام پر انوائسز جاری کرنے والے 50 سے 60 بے ایمان افراد کے گروہ کو بے نقاب کردیا۔

ایف بی آر کے کراچی میں موجود ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے ٹیکس سے بچنے والوں کا یہ اسکینڈل بے نقاب کیا جو آیا سیلز ٹیکس سے بچنے یا دیگر افراد کے سیلز ٹیکس واجبات کو کم سے کم کرنے میں جعلی اور فلائنگ انوائسز جاری کرنے میں مصروف ہے۔

یہ گینگ ملک کے مختلف شہروں سے کام کررہا اور چیزوں کی نقل و حرکت کے بغیر سیلز ٹیکس انوائسز جاری کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: وفاقی محتسب کا ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کا حکم

اس حوالے سے ایک سینئر ٹیکس عہدیدار نے بتایا کہ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق 7 ارب 72 کروڑ 90 لاکھ روپے کی کاغذاری لین دین ہوئی جس میں ایک ارب 30 کروڑ 50 لاکھ روپے کی سیلز ٹیکس کی رقم شامل ہے جبکہ جب تحقیقات مکمل ہوگی تو اس میں شامل یہی مبینہ ریونیو 10 ارب روپے تک جاسکتا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس مافیا کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچنے اور اسے پکڑنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

جعلی کمپنیاں جو صرف کاغذوں میں موجود ہیں وہ جعلی انوائسز جاری کرتی ہیں اور پھر وہ کبھی نہ خریدے گئے خام مال پر محکمہ سیلز ٹیکس سے رقوم کی واپسی (ریفنڈ) کا دعویٰ کرتی ہیں۔

علاوہ ازیں فلائنگ انوائسز کا استعمال رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کے ذریعے خام مال کا زیادہ استعمال دکھا کر ایف بی آر سے ناجائز رقم کی واپسی کے مطالبے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس معاملے کی مزید تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحقیقات ابھی اپنے مراحل میں ہے اور اب تک کراچی میں 10 بوگس رجسٹرڈ افراد کی معطلی اور بلیک لسٹنگ کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے، جن میں شاہد انٹرپرائسز، ہاشمی ٹریڈرز، جبران انٹرپرائسز، رضوان انٹرپرائسز، لکی کارپوریشن، زید انٹرپرائسز، زاہد اینڈ کو، کھتری انٹرپرائسز، ایس ایس ایس ایکسپو اور اے ون پیکیج شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صنعت کار ٹیکس چوری کے لیے جعلی اکاؤنٹس استعمال کرنے لگے

یہ بوگس رجسٹرڈ افراد اشیا کی ایک سے زیادہ تفصیلات کی فروخت ظاہر کرتے ہیں، جس میں کوئلہ اور اس سے متعلقہ مصنوعات، لبریکیٹنگ آئل اور گریس، پیٹرولیم اور اسی طرح کی دیگر مصنوعات، پلاسٹک کی چیزیں، کیمیکلز، کاغذ، سوت اور باریک دھاگا، ٹیکسٹائل کی چیزیں، کمپیوٹر اور دیگر سامان، متفرق الیکٹرکل، فرنیچر کے بستر اور کشنز شامل ہیں، جو ان کے خریداروں کی خریداری سے متعلق نہیں ہے۔

تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس اسکینڈل میں ملوث افراد نے لاکھوں روپے کی سپلائی دکھانے کے باوجود خزانے کو سیلز یا انکم ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔

واضح رہے کہ جعلی اور فلائنگ سیلز ٹیکس انوائسز جاری کرنے کے دعوؤں کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اور ہر ماہ خزانے کے لیے اربوں روپے کا خرچ آتا ہے۔


یہ خبر 27 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں