ہم سایہ، ہم اور ہماری نئی نسل -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
ہم سایہ، ہم اور ہماری نئی نسل -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/102525705" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


ہمسایہ جو میرے ساتھ ایک ہی سائے تلے رہتا ہے۔ گو کہ پہلے ہم ایک تھے۔ ایک ہی چھت کے نیچے دو بھائیوں کی طرح رہتے تھے لیکن پھر نجانے کہاں سے اتنی نفرتوں کی آندھیاں چلیں  کہ جن کی وجہ سےہم ایک سے دو ہوگئے۔

شاید ہمارے مفادات تھے، خیالات تھے یا پھر اُسی نے ہم دونوں کے بیچ آگ لگائی جس کا نظریہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ تھا۔ جو کچھ بھی تھا ہم نے تب سے ایک دوسرے کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی اور الگ الگ ہوگئے۔ اب وہ دیوار کے اُس پار رہتا ہے اور میں دیوار کے اِس پار۔

لڑائ جھگڑے بھی چلتے رہتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے خوف کے مارے اپنی حفاظت پر زیادہ خرچہ کرتے ہیں بہ نسبت اپنے بچوں پر اور انکی تعلیم اور صحت پر۔

ہتھیاروں کے ہم نے ڈھیر لگالیے ہیں. کان ہمیشہ دیوار سے لگائے رکھتےہیں اور ایک دوسرے کی خوب خبر رکھتے ہیں۔ لیکن اپنی خبر بالکل نہیں رکھتے۔ گھر جیسے چل رہا ہے اوپر والے کے آسرے چلتا رہتا ہے۔

ہم پہلےتو اپنی حفاظت کے لیے پیسے الگ کرتے ہیں پھر باقی کچھ بچتا ہے تو اور چیزوں پر بھی خرچ کرنے کا سوچتے ہیں۔ ویسے بھی روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم دونوں بھائی محلے میں ایسے دبدبے اور اکڑ سے گذرتے ہیں کہ ہر آنے جانے والا تو کیا دور دراز والے بھی ڈرتے ہیں۔ ویسے  ہیں تو ہم بھی ایٹمی طاقت اور بڑے بڑوں سے کندھا ملاکر چلنے میں ہی ہماری شان ہے۔

اُس پار چونکہ رکھوالوں کی نیت بار بار نہیں بدلی اور یہاں کی طرح گھر کے مالک بننے کی کوشش بھی نہیں کی، نا ہی مذہب کو گھر داری میں مداخلت کا کوئی زیادہ موقعہ ملا اور نا ہی  ہمارے ہاں کی طرح سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے پر کوئی پابندی ہے۔

نا ہی اِدھر کی طرح اُدھر فیوڈل اور مذہبی جنونیوں کا راج ہے، جنہیں تعلیم کے عام ہونے میں ہمیشہ اپنی موت دکھائی دیتی  ہے۔ اس لیے فیوڈل اور مذہبی جنونی اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ میری نسلیں تعلیم جیسی نعمت سے محروم رہیں۔ ان کی سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیتوں کو اس طرح دبا دیا جاتا ہے کہ یہ پودہ ان کے بچپن میں ہی مرجھا جاتا ہے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

اِس پودے کی آبیاری کتاب سے ہوتی ہے۔ آرٹ، موسیقی، رقص اور تھیٹر سے یہ پھلتا پھولتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے اِس پار تو یہ سب ممنوع ہوتے جارہے ہیں اور اُس پار اس پودے کی صدیوں سے آبیاری جاری ہے اور وہ روز بروز نکھرتا ہی جارہا ہے۔

ہماری دو نسلیں ہیں، ایک وہ جو اُدھر پھل پھول رہی ہے اور ایک اِدھر ہے کہ جس کی صلاحیتوں کو بجائے بڑھاوا دینے کے دبانے پر زور ہے۔ تعلیم کا رونا  کیا رونا کہ اور بہت سی ذمّہ داریوں کی طرح سرکار تعلیم کی ذمّہ داری سے بھی دستبردار ہوچکی ہے اس لیے کہ تعلیم کے ذمّہ داروں اور تنخواہ داروں کے اپنے بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

جب ان افسروں کے ملازموں اور ماسیوں کے بچے تک پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہوں تو یہ بے چارے کیسے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجیں گے؟ جہاں کے پڑھانے والے بھی ان ہی کے دستخطوں سے مقرر ہوئے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جنکے پاس چپڑاسی کی نوکری لینے جتنی رقم نہیں ہوتی تو اسے مجبوراً ٹیچر ہی لگانا پڑتا ہے۔

دوسرے وہ ہیں کہ جن کو خدا دے رہا ہے اور چھپر پھاڑ کر دے رہا ہے لیکن صرف اولاد۔ بچوں پہ بچے پیدا کیے جارہے ہیں اور ان کو پالنے، رہن سہن، خوراک اور تعلیم کا بندوبست بھی خدا کے نیک بندوں کےذریعے ہو  رہا ہے اور مدرسے ہیں کہ پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

جلد ہی ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ اسکول کم مدرسے زیادہ ہونگے کہ اب جن کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں انہوں نے  بھی حالات سے مجبور ہوکر اپنے بچوں کو مدرسوں میں ہی بھیجنا شروع کردیا ہے۔

اب تو سعودی شیخوں کے ساتھ ساتھ امریکا سرکار نے بھی مدرسوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے میں مدد کرنی شروع کردی ہے۔ ویسے یہ اور بات ہے کہ یہ سب مہربانیاں بھی اسی امریکہ سرکار کی ہی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کا رواج تھا۔ ڈبیٹنگ سوسائٹیز، ڈرامہ، موسیقی، کھیل اور انگنت سرگرمیاں ہوتیں اور بچوں کی صلاحیتیں بچپن سے ہی نکھر آتیں۔ کیا کیا مقابلے ہوتے تھے۔

شہر کے، ملک کے با صلاحیت بچے ایک دوسرے سے بچپن سے ہی واقف ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ جو آج کہتے ہیں کہ 'امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے'، انہیں امریکہ کی گود اچھی لگی تو اس کی گود میں بیٹھنے کے معاوضے کے طور پر جو ڈالر ان پر نچھاور ہوئے انہوں نے تو ان کی قسمت بدل دی۔

دھیرے دھیرے اس دیو نے سیاست، بیوروکریسی، سماجی کام  اور افواج تک کو ایسے نگل لیا کہ اب سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہیں۔ ڈالر اور ریال کی ریل پیل میں سب کچھ اوجھل ہوگیا۔

نیکی پھیلانی ہو تو دینے والے آنکھ بند کرکے دے دیتے ہیں کہ انہیں بھی آنکھیں بند کیے ہی رقم وصول ہوتی ہے۔ کسی کی مدد کرنی ہو، سماجی کام کرنا ہو تو پہلے پروپوزل بنائیں، فنڈنگ کروائیں اور پھر حساب کتاب کے بکھیڑوں میں ایسے پڑیں کہ سماجی کام صرف سماجی کام ہی رہ جائے۔

سرکار کے پاس جو آتا ہے اس سے تو ان کی تنخواہیں اور باقی کے خرچے  بھی پورے نہیں ہوتے سو جن کاموں پر انہوں نے خرچے کرنے ہوتے ہیں  وہ دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور آرٹ، ادب، موسیقی، رقص جس سے  معاشرے میں نفاست اور دھیما پن پیدا ہوتا ہے ان کے لیے نا کسی کے پاس کوئی پروپوزل ہے نا ہی رقم کہ یہ تو ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

ہماری سب سے بڑی ترجیح تو دہشتگردی سے لڑنا ہے جس کے لیے ہمیں رقم چاہیئے، اور کوئی ہم سے یہ نہ پوچھے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی، کیوں کی اور کیسے کی۔ جہاں امن امان قائم کرنے کی رقم میں کمی ہوتی ہے، اسی دن امن امان کا مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ دو چار کو ماردو، یا دو چار دھماکے ہوجائیں تو پھر رقم بڑھادی جاتی ہے۔

بے چارے امریکہ کو جتنا ہم نے اُلو بنایا ہے اتنا کوئی اور نہیں بنا سکتا۔ طالبان بنانے کے پیسے الگ لیے تو ختم کرنے کے الگ۔ ایک ہاتھ سے جاہلیت پھیلانے کا معاوضہ لیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے اسے ختم کرنے کا بھی۔

پیسے کی اس دوڑ میں ہماری سادگی، دھیماپن، رکھ رکھاؤ ، نیازمندی اور سچائی کہیں پیسے کے پیچھے دوڑتے دوڑتے کھو ہی گئی ہے جبکہ اُس پار کی نئی نسل اس عمر میں ہی فن کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

وہاں کی کارپوریٹ کمپنیاں بھی موسیقی، راگ، رقص، ڈرامہ اور عام معلومات میں انویسٹ کر رہی ہیں۔ وہاں اگر کسی کو انعام ملتا ہے تو اس کی صلاحیت پر، یہاں خیرات اور امداد، وہ بھی اعلان کرکے اور ہمدردی میں یا رحم کھا کر دی جا رہی ہے۔

دن رات غریبوں کا بھلا ہورہا ہے جو ان کی وجہ سے ہی غریب ہیں۔ دین کے کاروبار کو عروج پر پہنچا دیا گیا ہے اور ریٹنگز کے سارے ریکارڈز ٹوٹ چکے ہیں۔

وہاں کا گرو ایک بچے کو سنتا ہے تو اس پر فخر کرتا ہے کہ میری یہ نسل ابھی سے ایسی ہے تو مستقبل کیا ہوگا۔ جیسی سادگی اور سچائی اس بچے کے چہرے پر ہے ویسی ہے سادگی اور سچائی گرو کی آنکھوں اور چہرے  سے بھی ظاہر ہورہی ہوتی ہے۔

وہاں کے گرو کا اگر شاگرد نےاس کا گایا ہوا گانا گایا تویہ کہتے ہوئے نہیں شرماتا کہ تم نے مجھ سے دس گنا بہتر گایا اور ہمارے گرو کو اگر اپنے شاگرد میں کچھ اچھا دکھائی دے جائے تو  بجائے اس پر فخر کرنے کے وہ اسے اپنے گلے میں اٹکتا ہوا محسوس کرتا ہے۔

ایک طرف وہ نسل  ہے کہ پھل پھول رہی ہے اور ہر شعبے میں نمایاں ہے۔ ادھر ہم اپنی نسل سے خودکش دھماکے کروارہے ہیں۔ بم بناتے دھماکے سے مر جانے والے بچوں کو ایکسپرٹ لکھتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔

کل کراچی کی کچّھی عورتیں بتا رہیں تھیں کہ ہماری گلیوں میں تو اتنی گولیاں چلتی ہیں کہ ہمارے بچے اب کنچوں کی جگہ کارتوسوں سے کھیلتےہیں!


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Humsaaya: Our young generations and us - Pakistan News Jul 25, 2013 05:01pm
[…] Read this blog in Urdu here. […]