Dawnnews Television Logo

پی ٹی آئی کے صحت سے متعلق دعوے اور سال 2019 میں 'اقدامات'

عوام کی صحت کو لے کر ہر حکومت بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے لیکن جب زمینی حقائق دیکھیں تو تمام دعوے اور وعدے دھرے رہ جاتے ہیں۔
شائع 01 جنوری 2020 02:10pm

عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے حکومت بڑے بڑے دعوے تو کرتی نظر آتی ہے لیکن جب زمینی حقائق دیکھے جائیں تو تمام دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے بھی اقتدار میں آکر صحت و تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کے وعدے تو ضرور کیے لیکن اس کی حکومت کے دوسرے سال بھی بظاہر چھوٹی نظر آنے والی بیماریاں بھی وبائی شکل اختیار کر گئیں، بالخصوص پولیو کے کیسز میں ایک مرتبہ پھر خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا جو بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی رسوائی کا باعث بنا۔

اس کے علاوہ سال 2019 میں ملک کے طول و عرض میں کبھی ڈینگی نے سر اٹھایا تو کبھی نگلیریا میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور کتوں کے کاٹنے کے اتنے کیسز سامنے آئے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر جو حکومتیں لوگوں کو کتوں سے کاٹنے سے نہیں بچاسکتیں اور جو ڈینگی پھیلانے والے معمولی مچھروں کا صفایا نہیں کر سکتیں وہ ملک کے بڑے مسائل کو کیسے حل کریں گی۔

یہاں ہم رواں سال کے دوران بڑی سطح پر عوام کو پریشان اور تکلیف میں مبتلا کرنے والی بیماریوں اور ان کے اعداد و شمار کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔

ڈینگی

ڈینگی انفیکشن کیسے پھیلتا ہے؟

پاکستان سمیت پوری دنیا میں ڈینگی پھیلانے والا مچھر 'ایڈیِز ایجپٹی' ہے، دھبے دار جلد والا یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ مچھر 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں پرورش پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجہ حرارت میں مر جاتا ہے۔

ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے، نر سے ملاپ کے بعد مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔

ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔

ڈینگی جس کے نتیجے میں مریض کے پلیلیٹس میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور مریض میں خون جمنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے جس کے باعث پلیٹلیٹس لگانے پڑتے ہیں۔

اگر ڈینگی کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو ڈینگی بخار سے زندگی کو خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں خون بہنے، پلیٹلیٹس میں کمی اور خون کے خلیات ضائع ہونے لگتے ہیں یا بلڈ پریشر خطرناک حد تک گر جاتا ہے۔

— فائل فوٹو/ رائٹرز
— فائل فوٹو/ رائٹرز

ڈینگی کیسز کے اعداد و شمار

ملک میں ڈینگی کی روک تھام کے پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ملک میں ڈینگی کے 52 ہزار 682 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈینگی بخار کے شکار افراد میں سے مجموعی طور پر 92 افراد ہلاک ہوئے۔

ڈینگی بخار میں مبتلا ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں دیکھی گئی جہاں رواں سال اس کے 15 ہزار 699 کیسز سامنے آئے۔

اس کے بعد ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر دارالحکومت اسلام آباد رہا جہاں اس کے کیسز کی تعداد 13 ہزار 285 رہی۔

تیسرے نمبر پر ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ پنجاب تھا جہاں 10 ہزار 69 افراد اس بخار کا شکار ہوئے۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں 7 ہزار 82 اور بلوچستان میں 3 ہزار 387 افراد ڈینگی کا شکار ہوئے۔

آزاد جموں و کشمیر بھی ڈینگی کی وبا سے نہ بچ سکا اور وہاں رواں سال ایک ہزار 690 کیسز رپورٹ ہوئے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع بھی ڈینگی سے متاثر ہوئے جہاں اس کا شکار ہونے والوں کی تعداد 794 رہی جبکہ دیگر علاقوں سے 676 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈینگی سے ہونے والی ہلاکتوں کی بات کی جائے تو اس میں بھی سندھ آگے رہا جہاں اس وبا سے 43 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

اس کے بعد پنجاب میں ڈینگی بخار کا شکار ہوکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 23 رہی جبکہ اسلام آباد میں 22 افراد لقمہ اجل بنے۔

بلوچستان میں ڈینگی سے 3 افراد جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں ایک شخص موت کے منہ میں گیا۔

خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں ڈینگی کا شکار ہونے والے تمام افراد صحت یاب ہو کر لوٹے اور کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔

ڈینگی کی روک تھام کے لیے حکومت نے کیا کیا؟

سال 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ڈینگی کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آئے، جس کے باعث 90 سے زائد قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں۔

ماہ ستمبر میں ڈینگی کے سر اٹھانے اور روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں کیسز سامنے آنے کے باوجود صوبوں میں مچھر مار ادویات اسپرے نہیں کیے گئے اور عوام کو اس وبا کا سامنا کرنے کرنے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔

اس کے علاوہ سرکاری اسپتالوں میں زیر علاج ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے جس کے باعث مریض دہری اذیت کا شکار ہوئے۔

انتظامی اداروں کی جانب سے عوام کو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے میں کوتاہی اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال بھی ڈینگی مچھر کے پھیلنے کا سبب بنی۔

تاہم اب حکومت نے 2020 میں ڈینگی کے مزید مہلک ہونے کے خدشے کے پیش نظر اس پر قابو پانے کے لیے آسٹریلیا سے نئی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ فروری 2020 سے ہی حفاظتی اقدامات شروع کیے جائیں گے تاکہ ڈینگی مچھر کا لاروا پھیل نہ سکے۔

پولیو

پولیو کیا ہے اور کیسے منتقل ہوتا ہے؟

پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی (تیزی سے پھیلنے والا) مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضا کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے یا چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے فضلے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے، وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے ایسی جگہوں پر خارج ہوتا ہے جہاں سے باآسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

پولیو کیسز

سال 2019 ملک میں پولیو وائرس کے حوالے سے بدترین ثابت ہوا اور جہاں 2018 میں 12 اور 2017 میں صرف 8 کیسز رپورٹ ہوئے، وہیں رواں سال ملک میں بدقسمتی سے پولیو کے 119 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اس وائرس کا سب سے بڑا شکار صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے رہے جہاں پولیو کے 83 کیسز رپورٹ ہوئے۔

پولیو سے صوبے میں سب سے زیادہ لکی مروت اور بنوں کے اضلاع متاثر ہوئے جہاں بالترتیب 27 اور 26 کیسز سامنے آئے۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں 8، تورغر میں 7، ٹانک میں 5، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ہنگو میں 2، 2 جبکہ باجوڑ، چارسدہ، خیبر، شانگلہ، صوابی اور جنوبی وزیرستان سے پولیو کے ایک، ایک کیسز رپورٹ ہوئے۔

پولیو سے سب سے زیادہ متاثر صوبے کے لیے ماہ جون اور نومبر سب سے زیادہ افسوسناک تھے جہاں بالترتیب 13 اور 12 کیسز رپورٹ ہوئے، مئی اور اکتوبر کے مہینوں میں دہرے ہندسے میں پولیو کیسز سامنے آئے۔

رواں سال پولیو سے دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ رہا جہاں 21 کیسز سامنے آئے۔

صوبے کے 14 اضلاع میں بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں کراچی کے اضلاع بھی شامل ہیں۔

سال 2019 میں سندھ کے ضلع حیدر آباد، جامشورو، کراچی اورنگی ٹاؤن، لاڑکانہ، سکھر، ٹنڈو الہٰیار اور میرپور خاص میں 2، 2 جبکہ بدین، گلشن اقبال کراچی، جمشید ٹاؤن کراچی، کیماڑی کراچی، لیاری ٹاؤن کراچی، شہد بینظیر آباد اور سجاول میں ایک، ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا۔

سندھ میں رواں سال پولیو کے سب سے زیادہ کیسز اکتوبر اور نومبر میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 5، 5 تھی۔

رواں سال پولیو سے متاثر صوبوں میں بلوچستان کا تیسرا نمبر رہا جہاں کے چھ اضلاع میں 9 کیسز سامنے آئے، صوبے کا پولیو سے سب سے متاثرہ ضلع قلعہ عبداللہ رہا جہاں 2019 میں 3 کیسز سامنے آئے۔

اس کے علاوہ جعفر آباد میں 2 جبکہ ہرنائی، مستونگ، نصیر آباد اور کوئٹہ میں ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا۔

ملک کی سب سے زیادی آبادی والے صوبے پنجاب میں رواں سال سب سے کم 6 پولیو کے کیسز سامنے آئے۔

ان 6 میں سے 4 کیسز صرف لاہور کے تھے جہاں جنوری میں ایک، اپریل میں 2 اور جون میں ایک پولیو کیس سامنے آیا۔

اس کے علاوہ جہلم اور مظفر گڑھ میں ایک، ایک بچہ اس وائرس کا شکار ہوا۔

رواں سال پولیو کے حوالے سے جو امر انتہائی تشویشناک تھا وہ ملک کے شمالی علاقوں میں چند ماہ میں پولیو وائرس کی معدوم قسم ٹائپ 'ٹو' کے 7 کیسز کی تشخیص تھی۔

خیال رہے کہ 2014 میں پاکستان کو ویکسین ڈیرائیوڈ-پولیو وائرس ٹائپ سے پاک قرار دے کر اس کی ویکسین بند کردی گئی تھی۔

وائلڈ پولیو وائرس کی 3 اقسام ہیں ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور ٹائپ تھری، جن میں تینوں کے کیپسڈ پروٹین میں معمولی فرق ہے۔

پاکستان میں ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو وائرس کی اورل پولیو ویکسینز (او پی ویز) دی جاتی ہیں لیکن 2014 میں ٹائپ ٹو ویکسین کا استعمال روک دیا گیا تھا یہاں تک کہ 2016 سے ماحولیاتی نمونوں میں بھی یہ وائرس نہیں مل سکا تھا۔

پولیو وائرس روکنے کے لیے حکومتی اقدامات

پولیو وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی پولیو کے قطرے پلانے کے لیے کئی بار مہم چلائی جبکہ قطروں سے متعلق عوام کے ایک حصے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور منفی سوچ کو دور کرنے کے بھی آگاہی مہم چلائی گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 24 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق نیشنل اسٹریٹجک ایڈوائزری گروپ بھی تشکیل دیا جس میں بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شامل تھے، تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پولیو کے خاتمہ کو دیگر جماعتوں کی صوبائی حکومت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

تاہم ایک مرتبہ پھر پولیو کے بڑھتے کیسز نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

حکومت باقاعدگی سے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے میں تو سنجیدہ نظر آتی ہے لیکن یہ وائرس پھیلنے کی وجوہات کو ختم کرنے پر خاص توجہ نہیں دی جارہی، جن میں حفاظتی ٹیکوں کا فقدان، خراب سیوریج سسٹم، آلودہ پانی (جس کے ذریعے وائرس پھیل رہا ہے)، صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے نامناسب انتظامات ہیں۔

موسمی تبدیلیاں، پہاڑی علاقوں میں سفر کی دشواری، پولیو مہم ناکام بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال، قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال، پولیو ورکرز پر حملے اور ان کے اغوا جیسے عوامل بھی انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔

تاہم ان تمام وجوہات کی موجودگی کے باوجود حکومت، عالمی شراکت داروں کے تعاون سے 2022 تک مُلک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔

دیگر بیماریاں

ملک میں رواں سال پولیو اور ڈینگی کے علاوہ کتوں کے کاٹنے اور اس سے ریبیز کے مرض میں مبتلا ہو کر جان گنوانے والوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی۔

سال 2019 میں صرف سندھ میں ہی کتوں کے کاٹنے کے کم و بیش 2 لاکھ واقعات سامنے آئے اور اس کے باعث ریبیز میں مبتلا ہو کر محض کراچی میں ہی لگ بھگ 25 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔

سندھ کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بھی کتوں کے کاٹنے کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوئے جس کے باعث کئی افراد جان کی بازی ہار گئے۔

ریبیز کے باعث بڑی تعداد میں اموات کی ایک وجہ ہسپتالوں میں ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت کی بھی تھی۔

اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے بالخصوص کراچی مویشیوں سے پھیلنے والے کریمین ہیمریجک کانگو فیور (کانگو وائرس) کا شکار رہے اور صرف کراچی میں خطرناک وائرس سے کم و بیش 20 افراد ہلاک ہوئے۔

سال 2019 میں سندھ اور بالخصوص کراچی دماغ کھانے والا جرثومہ 'نگلیریا' کا بھی شکار بنا اور صوبے میں اس سے 15 سے زائد اموات سامنے آئیں۔

یہ وائرس عموماً سوئمنگ پولز، تالاب سمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں پیدا ہوتا ہے جس میں کلورین کی مقدار کم ہوتی ہے، شدید گرمی بھی نگلیریا کی افزائش کا سبب بنتی ہے۔