بھارت: متنازع شہریت قانون کےخلاف 100 تنظیموں کا مشترکہ مظاہروں کا اعلان

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2020
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے آئین کا پہلا جملہ ہے اور اس سے بڑا کوئی اور نہیں ہوسکتا—فائل فوٹو: رائٹرز
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے آئین کا پہلا جملہ ہے اور اس سے بڑا کوئی اور نہیں ہوسکتا—فائل فوٹو: رائٹرز

بھارت میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے)، نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) اور شہریوں کے قومی اندراج (این آر سی) کے خلاف ملک بھر کی تقریباً 100 تنظیموں نے مشترکہ جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق ان تنظیموں نے متنازع شہریت قانون کے خلاف مشترکہ لڑائی 'ہم بھارت کے شہری' کے بینر تلے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھین: بھارتی طالبہ نے شہریت قانون کیخلاف احتجاجاً گولڈ میڈل ٹھکرا دیا

سوراج ابھیان پارٹی کے بانی یوجندر یادو نے کہا کہ 'ہم سی اے اے، این پی آر اور ملک گیر این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی بینر کے تحت آئیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ہمارے آئین کا پہلا جملہ ہے اور اس سے بڑا کوئی اور نہیں ہوسکتا'۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ گروپ جنوری میں ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کا انعقاد کرے گا۔

یوجندر یادو کے مطابق احتجاج کا سلسلہ 3 جنوری سے شروع ہوگا جو ساویتر بائی پھولے کی یوم پیدائش ہے۔

خیال رہے کہ ساویتر بائی پھولے کو بھارت کی پہلی استانی تصور کیا جاتا ہے جنہوں نے برصغیر میں برطانوی دور میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تھی۔

گروپ اس کے بعد 8 جنوری کو احتجاج کرے گا، یہ وہ دن تھا جب کسانوں اور بائیں بازو کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونینز نے بھارت بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہریت قانون کے خلاف احتجاج پر جرمن طالبعلم کو بھارت چھوڑنے کا حکم

میڈیا رپورٹ کے مطابق اگلا مظاہرہ 12 جنوری کو ہوگا، جو یوم نوجوانوں کا قومی دن اور سوامی ویویکانند کا یوم پیدائش ہے۔

اس کے بعد احتجاج 17 جنوری کو ہوگا جس دن روہت ویمولا کو اس وقت کی انتظامیہ نے قتل کردیا تھا۔

یوجندر یادو نے کہا 26 جنوری کو ہم آدھی رات کو اپنا جھنڈا اٹھائیں گے اور 30 جنوری کو ملک بھر میں ایک انسانی چین بنائیں گے۔

واضح رہے کہ 30 جنوری کو مہاتما گاندھی کی برسی ہے۔

سماجی رکن اور مصنف ہرش مانڈر نے کہا 'حکومت کی اپنی پلے لسٹ میں دو چیزیں ہیں پہلا یہ کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملہ کرکے اس مسئلے کو فرقہ وارانہ بنانا اور دوسرا اس نے عوام سے جھوٹ بولا اور گمراہ کیا کہ ان کی پارٹی نے 2014 سے این آر سی کے بارے میں بات نہیں کی جبکہ حقیقت میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے متعدد مرتبہ پارلیمنٹ میں سی اے اے، این آر سی پر عملدرآمد کا ذکر کیا'۔

مزید پڑھیں: متنازع شہریت قانون کےخلاف مظاہرے: مودی کی جماعت کو ریاستی انتخابات میں شکست

دوسری جانب انسانی حقوق کی مشہور کارکن تیسا سیٹالواڈ نے کہا کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر شہریت کا فیصلہ کرنے کے حکومتی منصوبے کو مسترد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ واقعی ایک تاریخی لمحہ ہے، میں نے ایمرجنسی کے بعد سے اب تک کسی معاملے پر شہریوں کی اتنی مظاہروں میں اتنی شرکت نہیں دیکھی'۔

انسانی حقوق کے سینئر وکیل مہر دیسائی نے کہا کہ این پی آر صرف این آر سی کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ورنہ آپ مردم شماری ایکٹ کے تحت مردم شماری کرتے ہیں۔

طالب علم کارکن عمر خالد نے کہا 'یہ شہریوں کی زیرقیادت تحریک ہے یہاں کسی سیاسی جماعت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

انہوں نے مزید کہا 'ہماری تحریک عدم تشدد پر مبنی ہے، تشدد صرف بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں یا ان ریاستوں سے ہو رہا ہے جہاں دہلی کی طرح بی جے پی پولیس پر کنٹرول رکھتی ہے، وہ لوگوں کو تشدد پر اکسا کر اور پھر اس تحریک کو دبانے کے لیے لوگوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ریاستی حکومتوں پر بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف کسی طرح کی باضابطہ اور قانونی قرارداد لائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں