عراق: پیرا ملٹری دستوں کی مظاہرین سے امریکی سفارتخانے سے نکلنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2020
مظاہرین نے عمارت پر پتھراؤ کیا جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ان کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا—فوٹو: رائٹرز
مظاہرین نے عمارت پر پتھراؤ کیا جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ان کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا—فوٹو: رائٹرز

عراق میں امریکی فضائی حملوں کے خلاف سراپا احتجاج نیم فوجی دستوں نے اپنے حامی مظاہرین کو بغداد میں امریکی سفارتخانے کی حدود سے دستبردار ہونے کی درخواست کی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق نیم فوجی دستوں کی درخواست کے باوجود فوری طور پر امریکی سفارتخانے کی حدود سے مظاہرین کے انخلا کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

واضح رہے کہ ایران کے حمایت یافتہ گروپ کے خلاف امریکی فضائی حملوں پر مشتعل مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارتخانے کی بیرونی حدود میں حملہ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایرانی سپریم لیڈر کا ٹرمپ کو جواب، 'ہر خطرے کا مقابلہ کریں گے'

مظاہرین نے عمارت پر پتھراؤ کیا جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ان کو منتشر کرنے کی کوشش میں آنسو گیس اور اسٹین گرینیڈ فائر کیے۔

تازہ پیش رفت کے مطابق پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) کے نیم فوجی دستوں نے مشتعل ہجوم سے امریکی سفارتخانے سے انخلا کی درخواست کی ہے۔

پی ایم ایف نے کہا کہ 'مظاہرین کا پیغام سنا جاچکا ہے اس لیے انہیں اب وہاں سے چلے جانا چاہیے۔'

واضح رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں کیے گئے امریکی فضائی حملے میں کتائب حزب اللہ کے 2 درجن جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ

مظاہرین کے دھاوا بولنے سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے اکثر عملے کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

یہ کئی برسوں میں پہلا موقع ہے کہ مظاہرین امریکی سفارتخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے ہیں جہاں یہ سفارتخانہ کئی سیکیورٹی چوکیوں کے حصار کے بعد انتہائی محفوظ علاقے میں واقع ہے۔

مظاہرین نے مسلح گروہوں کے نیٹ ورک 'الحشد الشعبی' کی حمایت میں پرچم لہرائے جو بڑے پیمانے پر سیکیورٹی فورسز میں شامل ہوچکے ہیں۔

اس حوالے سے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ حملہ ’دہشت گردوں نے ترتیب‘ دیا جس میں سے ایک کا نام ابو مہدی المہندس تھا۔

ابو مہدی المہندس کی شناخت تہران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم الحشد الشعبی کے نائب رہنما کی حیثیت سے ہوئی جس میں کتائب حزب اللہ شامل ہے جسے امریکی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں پرتشدد مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 35 افراد ہلاک

عراق میں امریکی سفارتخانے پر ایران کی حمایت کرنے والے مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران کو خبردار کیا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

امریکی صدر کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ 'اس حملے کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے آپ کوئی غلط فیصلہ نہیں کر سکتے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'دوسری بات یہ ہے کہ ہوش کے ناخون لو، اس خطے کے لوگ امریکا سے نفرت کرتے ہیں، امریکی یہ بات کیوں نہیں سمجھتے؟'

تبصرے (0) بند ہیں