عراق میں پرتشدد مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 35 افراد ہلاک

29 نومبر 2019
عراق میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 350 افراد ہلاک ہو چکے ہیں— فوٹو: رائٹرز
عراق میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 350 افراد ہلاک ہو چکے ہیں— فوٹو: رائٹرز

عراق میں حکومت مخالف احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا ہے اور پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں مزید 35 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

عراق میں حکومت کے خلاف مظاہرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور گزشتہ روز مشتعل مظاہرین نے نجف میں قائم ایرانی قونصل خانے کو آگ لگا دی تھی۔

مزیید پڑھیں: عراق میں مظاہرین نے ایرانی قونصل خانے کو آگ لگادی

تاہم اس ہنگامہ آرائی میں ایرانی قونصل خانے کا عملہ کسی قسم کے نقصان سے محفوظ رہا اور عمارت کے عقبی حصے سے نکلنے میں کامیاب رہا جس کے بعد حکام نے نجف میں کرفیو نافذ کردیا۔

ان مظاہروں کا سلسلہ یکم اکتوبر سے جاری ہے جہاں مظاہرین ایران کی حمایت یافتہ حکومت پر بدعنوانی میں ملوث ہونے، عوامی کاموں کے حوالے سے شکایات اور بے روزگاری کی شرح انتہائی بلند ہونے کے الزامات عائد کر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم مظاہرین کا سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ عراقی حکومت ایران کی حمایت اور اس کے دفاع کے لیے اپنے ہی عوام پر ظلم کر رہی ہے۔

جمعرات کو سب سے زیادہ ہلاکتیں ناصریہ میں ہوئیں جہاں ایک پُل پر رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں ایران کی جارحانہ مداخلت کا خفیہ رپورٹس میں انکشاف،امریکی اخبار

میڈیکل ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔

مظاہرین ناصریہ کے داخلی راستے پر دھرنا دیے ہوئے تھے اور کئی دنوں سے بند راستے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔

اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افراد کرفیو کی پابندیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تاکہ پولیس کی فائرنگ میں مرنے والے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کی تدفین کر سکیں۔

اس کے علاوہ دارالحکومت بغداد میں دریائے دجلہ کے پُل پر پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 4 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ نجف میں بھی جھڑپوں کے نتیجے میں مزید 2 افراد ہلاک ہوئے۔

مزید پڑھیں: اقوامِ متحدہ، آیت اللہ کا عراق سے انتشار کے خاتمے کیلئے اصلاحات کا مطالبہ

سیکیورٹی حکام کے مطابق احرار پُل پر مظاہرین کی جانب سے رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش پر ان پر فائرنگ کی گئی۔

نجف میں ایرانی قونصل خانے کو نذر آتش ہوتے ہوئے دیکھنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا کہ نجف میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز ہم پر اس طرح گولیاں بر سا رہی ہیں جیسے ہم پورے عراق کو آگ لگا رہے ہیں۔

مظاہروں میں شریک ایک اور فرد نے ایرانی قونصل خانے کو آگ لگانے کے واقعے کو بہادری اور عراقی عوام کا ردعمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایرانیوں کی ضرورت نہیں، ہم ایران سے ان ہلاکتوں کا بدلہ لیں گے۔

عراقی وزارت خارجہ نے قونصل خانے کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشتعل افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔

مزید پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف سول نافرمانی کی مہم، سرکاری دفاتر بند

بڑے پیمانے پر احتجاج اور شہریوں کی ہلاکت کے باوجود عراقی حکومت کی جانب سے مظاہرین سے مذاکرات کے لیے کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔

حکومت نے مظاہرین کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے اصلاحات کی تجویز پیش کی لیکن مظاہرین نے انہیں دکھاوا قرار دے کر مسترد کردیا۔

وزیر اعظم عادل عبدالمہدی مظاہرین کی جانب سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر نے بھی شرکت کی۔

ادھر عراق کے مقبول مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے حکومت سے ایک مرتبہ پھر مستفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں یہ سب کیا ہورہا ہے؟

انہوں نے ٹوئٹر پر مظاہرین کے نام پیغام میں کہا کہ وہ مقدس مذہبی مقامات سے دور رہیں اور انہیں اپنے انقلاب کو ختم کرنے کے لیے بہانہ فراہم نہ کریں، اگر حکومت مستعفی نہیں ہوتی تو یہ عراق کے خاتمے کا آغاز ہو گا۔

عراق میں جاری پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 350 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں