امریکا کا مشرق وسطیٰ میں مزید 3 ہزار فوجی تعینات کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2020
نئے فوجی دستے پہلے سے موجود تقریباً 750 امریکی فوجیوں میں شامل ہوں گے—فائل فوٹو: رائٹرز
نئے فوجی دستے پہلے سے موجود تقریباً 750 امریکی فوجیوں میں شامل ہوں گے—فائل فوٹو: رائٹرز

امریکا نے 3 ہزار اضافی فوجیوں کو مشرق وسطیٰ میں بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکی افواج کو بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اپناتےہوئے امریکا 82 ویں ایئر بورن ڈویژن سے تقریباً 3 ہزار اضافی فوجی مشرق وسطیٰ بھیج رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: اسمٰعیل قاآغانی ایرانی قدس فورس کے نئے سربراہ مقرر

اعلامیے کے مطابق 'امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف ممکنہ خطرے کے مناسب جواب اور احتیاطی کارروائی کے طور پر فوجی دستوں کو کویت میں تعینات کیا جائے گا'۔

پینٹاگون کے مطابق نئے اضافی فوجی دستے پہلے سے موجود تقریباً 750 امریکی فوجیوں میں شامل ہوں گے جو رواں ہفتے کے شروع میں کویت بھیجے گئے تھے۔

واضح رہے کہ عام طور پر ایک بریگیڈ میں ساڑھے تین ہزار فوجی شامل ہوتے ہیں۔

امریکی حکام نے رواں ہفتے کے آغاز میں رائٹرز کو بتایا تھا کہ اس خطے میں ہزاروں اضافی فوج بھیجی جاسکتی۔

خیال رہے کہ امریکا گزشتہ برس مئی سے مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی تقریبا 14 ہزار اضافی فوجی روانہ کرچکا ہے۔

جون میں بھی امریکا نے ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے، کشیدگی اور خلیج فارس میں تیل بردار جہازوں پر حملے کے تناظر میں مشرق وسطیٰ میں مزید ایک ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایرانی فوجی جنرل کو بہت پہلے ہی قتل کردینا چاہیے تھا، ڈونلڈ ٹرمپ

واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں فوجی دستوں کی تعیناتی کا فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکا نے فضائی حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا تھا۔

علاوہ ازیں تازہ پیش رفت کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی قاآنی اسمٰعیل کو قدس فورس کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔

دوسری جانب امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کا مقصد ایک 'انتہائی حملے' کو روکنا تھا جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو خطرہ لاحق تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مائیک پومپیو نے 'فاکس نیوز' اور 'سی این این' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'مبینہ خطرے' کی تفصیلات پر بات کرنے سے گریز کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں