ملازمہ تشدد کیس: لیڈی ڈاکٹر 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2020
ملزمہ نے مبینہ طور پر اپنے گھریلو ملازمہ 14 سالہ ثنا کو جسمانی تشدد کر کے قتل کیا—تصویر: شٹر اسٹاک
ملزمہ نے مبینہ طور پر اپنے گھریلو ملازمہ 14 سالہ ثنا کو جسمانی تشدد کر کے قتل کیا—تصویر: شٹر اسٹاک

لاہور: گھریلو ملازمہ کے قتل کے کیس میں گرفتار خاتون ڈاکٹر کو جسمانی ریمانڈ پر چونگ پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجسٹریٹ کی عدالت میں پولیس نے ملزمہ ڈاکٹر حمیرا جنید کو پیش کیا اور ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

علاوہ ازیں تفتیشی افسر نے کیس کی ابتدائی رپورٹ بھی جمع کروائی جس میں کہا گیا تھا کہ ملزمہ نے مبینہ طور پر اپنی گھریلو ملازمہ 14 سالہ ثنا کو جسمانی تشدد کر کے قتل کیا۔

پولیس نے لڑکی کی لاش ڈاکٹر کے گھر سے برآمد کی تھی، بعد ازاں مجسٹریٹ نے ملزمہ کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمہ پر تشدد کا الزام، ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف مقدمہ درج

دوسری جانب خاتون ڈاکٹر اور ان کے شوہر کا کہنا تھا کہ جب وہ کام سے گھر واپس لوٹے تو دیکھا کہ ثنا کی موت ہوچکی ہے۔

تاہم پولیس کا موقف تھا کہ یہ جوڑا ملازمہ پر تشدد کرنے کا عادی تھا جو علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب زخموں کے باعث دم توڑ گئی تھی۔

ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق یکم جنوری کو چونگ پولیس نے نوجوان ملازمہ کی ہلاکت کے سلسلے میں خاتون ڈاکٹر اور ان کے شوہر کو گرفتار کیا تھا جس کی موت مبینہ طور پر گھر کے اندر ہونے والے تشدد کے باعث ہوئی۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے تفتیشی افسر اعجاز رسول نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر حمیرا، ثنا پر اکثر تشدد کرتی تھی جس کے باعث ثنا کی نہایت دردناک موت ہوئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ثنا نے گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے حجرہ شاہ مقیم میں ٹیکسٹائل مل کے ملازم جنید کی رہائش گاہ پر ملازمت کا آغاز کیا تھا جہاں اس کے والدین کچھ ماہ قبل اسے چھوڑ گئے تھے۔

تفتیشی افسر کے مطابق ڈاکٹر حمیرا نے کچھ روز قبل ثنا کو بیلن سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث اس کے جسم پر خطرناک زخم آئے تھے۔

مزید پڑھیں: کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور واقعہ

انہوں نے کہا کہ جب مذکورہ جوڑے سے ملازمہ کے جسم پر پائے گئے نشان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ زخم سیڑھیوں سے گرنے کے باعث ہوئے تاہم وہ اس کا علاج نہ کروانے کی کوئی وضاحت نہ دے سکے۔

پولیس حکام کے مطابق ڈاکٹر حمیرا منصورہ میں موجود ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔

جمعرات کے روز ڈاکٹر حمیرا اور ان کے شوہر دونوں جب کام سے لوٹے تو ثنا کو مردہ حالت میں پایا، چونگ سرکل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس راجہ فخر نے گھر کا دورہ کیا اور دونوں میاں بیوی کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔

قبل ازیں 17 مئی 2019 کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے مالکن کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ گھریلو ملازمہ کو لاہور کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر سے بازیاب کروا کر مالکن کو گرفتار کیا تھا۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس جنوری میں گھریلو ملازمہ عظمیٰ کو مالکن نے اپنی بیٹی کی پلیٹ سے نوالہ اٹھانے پر بطور سزا ایک بڑے چمچے سے حملہ کیا، جس سے عظمیٰ کو سر پر شدید زخم آئے اور وہ بیہوش ہوگئی۔

13 جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد اندرونی طور پر خون بہنے کے باوجود عظمیٰ کو ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا اور اہل خانہ نے اسے ایک کمرے میں رکھا جہاں 16 جنوری کو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا۔

بعد ازاں ایک اور رات میں اہل خانہ نے لڑکی کی لاش کو علامہ اقبال ٹاؤن کی مون مارکیٹ کے قریب نالی میں پھینک دیا تھا جس کے ملنے کے بعد کی گئی تفتیش کے تناظر میں تین خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل 20 اکتوبر 2018 کو راولپنڈی میں 11 سالہ بچی پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے الزام میں خاتون فوجی افسر اور ان کے شوہر کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔

اسی طرح 28 اکتوبر 2018 کو لاہور میں پولیس نے 11 سالہ ملازمہ کو گرم استری سے تشدد کا نشانہ بنانے پر میاں بیوی کو گرفتار کیا تھا۔

پولیس کے مطابق 11 سالہ بچی چائنہ اسکیم کے علاقے میں اعجاز نامی شخص کے گھر ملازمت کرتی تھی جہاں اسے مبینہ طور پر گرم استری سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر مالکان کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے خلاف طویل قانونی کارروائی کی گئی تو بچی کے والدین نے ملزمان کو معاف کردیا تھا۔

بچی کے بیان کے مطابق چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا میڈیکل بورڈ کے مطابق بچی کے 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔

اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لے کر اسے جاری رکھا اور 8 مئی کو اس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں