گھریلو ملازمہ عظمیٰ کا قتل: 3 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

01 فروری 2019
عظمیٰ کی عمر 16 سال تھی اور اسے کھانے کا نوالہ اٹھانے پر امتشدد کیا گیا— فوٹو: شٹر اسٹاک
عظمیٰ کی عمر 16 سال تھی اور اسے کھانے کا نوالہ اٹھانے پر امتشدد کیا گیا— فوٹو: شٹر اسٹاک

لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں نوجوان گھریلو ملازمہ کے قتل کے اقرار کے بعد پولیس کی تفتیش میں تینوں خواتین کو قصوروار قرار دے دیا گیا، جس کے بعد ان تینوں خواتین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

خیال رہے کہ ان تینوں خواتین کے خلاف اقبال ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں پہلے ہی مقدمہ درج کیا جاچکا تھا۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) اقبال ٹاؤن ڈویژن علی رضا نے 16 سالہ عظمیٰ کے 'ہولناک قتل' کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس بات کو عیاں کیا کہ گھریلو ملازمہ اپنے آجروں کے ہاتھوں ظلم اور تشدد کا سامنا کررہی تھی۔

مزید پڑھیں: لاہور : 11 سالہ ملازمہ پر تشدد میں ملوث میاں بیوی گرفتار

انہوں نے بتایا کہ عظمیٰ نے گھر کی مالکن ماہ رخ کی چھوٹی بیٹی کی پلیٹ سے کھانے کا ایک نوالہ لیا تھا اور 3 خواتین، ماہ رخ، ان کی بیٹی آئمہ اور نند ریحانہ مبینہ طور پر اس قتل میں ملوث ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ماہ رخ کی کہانی کا 'عجیب بیان' نے سچائی تک پہنچنے میں پولیس کی کافی مدد کی۔

ایس پی رضا نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی درخواست میں انہوں نے عظمیٰ پر رقم چوری کرنے اور گھر سے بھاگنے کا الزام لگایا جبکہ 'ماہ رخ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ 3 سال قبل ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا'۔

انہوں نے بتایا کہ ماہ رخ کا مشکوک بیان اس وقت بے نقاب ہوا جب پولیس تحقیقات کے لیے ان کے گھر گئی اور وہاں یہ بات سامنے آئی کہ ملزمہ ایک سالہ بچی کی والدہ ہے۔

اس معاملے نے پولیس کو شک میں مبتلا کردیا جس کے بعد چوری سے متعلق پورے بیان پر شکوک و شبہات نے جنم لیا۔

بعد ازاں مزید تفتیش میں یہ انکشاف ہوا کہ ماہ رخ نے کھانے کا نوالہ اٹھانے پر بطور سزا عظمیٰ پر ایک بڑے چمچے سے حملہ کیا، جس سے عظمیٰ کو سر پر شدید زخم آئے اور وہ بیہوش ہوگئی۔

ایس پی نے مزید بتایا کہ ' اندرونی طور پر خون بہنے کے باوجود عظمیٰ کو ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا اور اہل خانہ نے اسے ایک کمرے میں رکھا'۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا یہ واقعہ 13 جنوری کو ہوا جبکہ اس خاندان نے عظمیٰ کو 'غیر قانونی طور پر حراست' میں رکھا، جس سے اس کی صحت مزید بگڑتی گئی اور وہ 16 جنوری کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔

واقعے کے بعد ماہ رخ نے اقبال ٹاؤن پولیس کے پاس ایک درخواست جمع کروائی جس میں عظمیٰ پر چوری کا الزام لگایا گیا۔

علی رضا کا کہنا تھا کہ پولیس حکام کے دورے کے موقع پر خاندان کی جانب سے لڑکی کی لاش کو ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اسے گھر کے گیراج میں موجود کار میں چھپایا گیا تھا'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اسی روز رات میں اہل خانہ نے لڑکی کی لاش کو علامہ اقبال ٹاؤن کی مون مارکیٹ کے قریب نالی میں پھینک دیا'۔

بعد ازاں اگلے روز کچھ مقامی لوگوں نے لاش کو دیکھا اور پولیس کو اطلاع کی جس پر پولیس نے عظمیٰ کے والد محمد ریاض سے رابطہ کیا، جنہوں نے اپنی بیٹی کی شناخت کی۔

یہ بھی پڑھیں: لیگی رہنما کی اہلیہ کا گھریلو ملازمہ پر مبینہ بدترین تشدد

انہوں نے مزید بتایا کہ عظمیٰ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا گیا جہاں اس بات تصدیق ہوئی کہ موت سر پر چوٹوں کی وجہ سے ہوئی۔

ایس پی رضا کا کہنا تھا کہ 'ہم نے فوری طور پر ماہ رخ کو حراست میں لیا، جہاں تفتیش کے دوران انہوں نے چھوٹی سے بات پر عظمیٰ کو چمچے سے زخمی کرنے کا اقرار کیا۔

ماہ رخ نے پولیس کو مزید بتایا کہ ان کی بیٹی اور نند بھی اس جرم میں شریک تھے، جس کے بعد پولیس نے والد محمد ریاض کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا تھا۔


یہ خبر یکم فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں