طالبان کی امریکا کو عارضی سیز فائر کی پیشکش

17 جنوری 2020
طالبان کی اس کی پیشکش کو امن معاہدے کی جانب مثبت پیش قدمی کے نئے موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے — فائل فوٹو / اے پی
طالبان کی اس کی پیشکش کو امن معاہدے کی جانب مثبت پیش قدمی کے نئے موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے — فائل فوٹو / اے پی

افغان طالبان نے امریکا کو افغانستان میں 7 سے 10 روز کی عارضی سیز فائر کی پیشکش کردی۔

امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق مذاکرات سے باخبر افغان طالبان کے عہدیداران نے بتایا کہ 'طالبان کی جانب سے سیز فائر کی پیشکش کی دستاویز قطر میں افغان امن عمل میں امریکا کے نمائندے زلمے خلیل زاد کے حوالے کی گئی ہے۔'

زلمے خلیل کافی عرصے سے طالبان پر سیز فائر کے لیے زور دے رہے تھے لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ طالبان کی اس پیشکش کے بعد ان کے اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت ہو سکے گی یا نہیں جس کا حتمی مقصد فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہے۔

طالبان کی اس کی پیشکش کو امن معاہدے کی جانب مثبت پیش قدمی کے نئے موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے افغانستان میں 18 سال سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ اور وہاں سے امریکی فوج کا انخلا ممکن ہو سکے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے طالبان کی اس پیشکش پر فوری تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ 'آج مثبت پیشرفت ہوئی ہے، طالبان نے تشدد کو کم کرنے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ '(امریکا کی جانب سے) جو ایک مطالبہ تھا [...] یہ امن معاہدے کی سمت ایک قدم ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا، طالبان سے مذاکرات کا دوبارہ آغاز جلد کرے گا‘

واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے یہ بات بھی شامل ہوگی کہ مختلف افغان گروپوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگا تاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد کابل کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنایا جا سکے۔

اس لائحہ عمل میں کئی اہم معاملات جیسے مستقل سیز فائر، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور طالبان کے ہزاروں جنگجوؤں کے مستقبل جیسے امور پر غور کیا جائے گا۔

تاہم طالبان افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی حکومت سے مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔

افغان حکومت داخلی طور پر بھی اختلافات کا شکار ہے جہاں 2014 میں انتخابات کے بعد امریکا کی مداخلت سے اشرف غنی اور عبداللہ اور دیگر کے درمیان حکومتی عہدے تقسیم کیے گئے تھے لیکن رواں برس منعقدہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ان کے آپس میں اختلافات سامنے آچکے ہیں۔

عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی اپنے طور پر کامیابی کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ انتخابی نتائج کا اعلان تین مہینوں کے بعد بھی نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: امریکا کے طالبان سے مذاکرات بحال، قطر میں مذاکرات کا پہلا دور

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال ستمبر میں افغانستان میں طالبان کی کارروائی میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد اچانک طے شدہ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا، حالانکہ زلمے خلیل اور طالبان کے درمیان مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے تھے۔

تاہم نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ مغربی تہوار 'تھینکس گِونگ' کے موقع پر اچانک افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔

دسمبر میں طالبان نے ہفتوں کی مشاورت کے بعد عارضی جنگ بندی کی پیشکش پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں