حکومت اور اپوزیشن سینیٹ اجلاس فروری کے اختتام تک جاری رکھنے پر متفق

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2020
سینیٹ کے پارلیمانی سال کا آغاز گزشتہ برس 12 مارچ سے ہوا تھا —فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ کے پارلیمانی سال کا آغاز گزشتہ برس 12 مارچ سے ہوا تھا —فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن نے کوئی خاص کام نہ ہونے کے باوجود سینیٹ کے موجودہ سیشن کو فروری کے پورے مہینے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ ایک پارلیمانی سال کے لیے لازم کم از کم 110 دن اجلاس منعقد کرنے کی شرط پوری کی جاسکے۔

غیر معمولی صورتحال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا سیشن کو تقریباً 2 ماہ جاری رکھنے پر صرف اس وجہ سے اتفاق کرنا کہ آئینی شرط کو پورا کیا جاسکے نہ صرف سینیٹ کے تقدس کو مجروح کرنے کے مترادف ہے بلکہ یہ اراکینِ پارلیمان کی بدنامی کا بھی سبب بنے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 54(2) کے تحت ہر سال سینیٹ کے اجلاس 110 دنوں کی مدت سے کم نہیں ہونے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب

واضح رہے کہ سینیٹ کے پارلیمانی سال کا آغاز گزشتہ برس 12 مارچ سے ہوا تھا اور 17 جنوری تک ایوانِ بالا کہ صرف 70 روز اجلاس ہوسکے ہیں۔

اگر اس میں 3 مشترکہ اجلاسوں کو بھی شمار کرلیا جائے تو سینیٹ اجلاس اب تک 73 روز ہوئے ہیں اس کا مطلب آئینی شرط کے مطابق 11 مارچ تک مزید 37 روز اجلاس ہونا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقت میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران سینیٹ کے اجلاس صرف 48 روز ہوئے ہیں کیوں کہ قواعد کے مطابق 2 ورکنگ ڈیز (کام کے دن) کے درمیان آنے والی 2 تعطیلات کا وقفہ بھی اجلاس میں شمار کرلیا جاتا ہے۔

ادھر سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے حکومت کی طرف سے اس سست روی کا اعتراف تو کیا لیکن تمام تر ذمہ داری اپوزیشن پر عائد کردی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اتفاق کیا کہ حکومت کی جانب سے 3 سے 4 ماہ تک سینیٹ کا سیشن نہ بلانے کے فیصلے سے پارلیمانی نظام مفلوج ہوا لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کر کے ہم نے حکومت کو مفلوج ہونے سے بچا لیا‘ جو بقول ان کے ملک اور عوام پر زیادہ منفی اثرات مرتب کرتا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن نے ایسا ماحول تشکیل دے دیا تھا جو پارلیمانی امور بہتر طریقے سے جاری رکھنے کے لیے سازگار نہیں تھا۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں عددی اکثریت ہونے کی وجہ سے اپوزیشن نے قانون سازی میں رکاوٹیں پیدا کیں، جس کے باعث حکومت یہ کام آرڈیننس کے ذریعے کرنے پر مجبور ہوئی۔

تاہم انہوں اسے اس بات سے اتفاق کیا کہ سینیٹ سیشن کی غیر ضروری طوالت اراکین پارلیمنٹ کے کام کے معیار کو متاثر کرے گی، ساتھ ہی انہوں نے تجوزی دی کہ آئین میں اجلاسوں کی تعداد کی شرط پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ: اپوزیشن کا نیب قانون میں ترمیم نامنظور کرنے کا عندیہ

دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر سینیٹر رضا ربانی نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے بدنیتی پر مبنی ارادوں کی وجہ سے 4 ماہ تک سینیٹ کا اجلاس نہیں بلایا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کو آرڈیننس کے ذریعے چلا رہی ہے اور سینیٹ کے اجلاس اس ڈر سے نہیں بلائے کہ اپوزیشن ان آرڈیننس کو مسترد کرسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں