ایک سال کے دوران کراچی کے 3 ہسپتالوں میں جنسی استحصال کے 545 واقعات

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2020
شہر کے 3 بڑے ہسپتالوں میں یہ کیسز رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو: اے پی
شہر کے 3 بڑے ہسپتالوں میں یہ کیسز رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو: اے پی

کراچی: سال 2019 میں شہر قائد کے 3 بڑے ہسپتالوں میں جنسی استحصال کے 545 واقعات رپورٹ کیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکام اور حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ جنسی استحصال کے کیسز کے 417 مشتبہ افراد کو بھی طبی معائنے کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی اور عباسی شہید ہسپتال لایا گیا۔

ان 3 ہسپتالوں کے اعداد و شمار میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ سال کے دوران 407 خواتین ریپ کی متاثرہ تھیں جبکہ دیگر 138 بدفعلی کے کیسز تھے۔

ڈان کی جانب سے سال 2019 کے لیے پولیس سرجن کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جنسی استحصال کے متاثرہ لوگوں کی عمر فراہم نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: کراچی: 7 سالہ بچی کے 'ریپ' میں ملوث 16 سالہ لڑکا گرفتار

ادھر پولیس سرجن ڈاکٹر قرار احمد عباسی نے یہ مشاہدہ کیا کہ 'آہستہ آہستہ ماضی کے مقابلوں میں جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے'۔

علاوہ ازیں 3 ہسپتالوں کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ شہر میں سال 2013 سے 2019 کے درمیان 2500 ریپ کیسز اور 593 بدفعلی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں 325 ریپ کیسز، 2014 میں 324، 2015 میں 342، 2016 میں 360، 2017 میں 331، 2018 میں 411 اور 2019 میں 407 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے۔

علاوہ ازیں مذکورہ ریپ کیسز میں ایک ہزار 709 مشتبہ افراد اور بدفعلی کے کیسز میں 454 مشتبہ افراد کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال بھی لایا گیا۔

آتشی اسلحہ کے متاثرین

دوسری جانب ڈاکٹر قرار احمد عباسی کا کہنا تھا کہ شہر قائد میں آتشی اسلحہ اور بم دھماکوں کے متاثرین میں ماضی کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی اور ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق 2019 میں دھماکے کے متاثرین کا کوئی کیس ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔

تاہم اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ آتشی اسلحہ سے ہلاک ہونے والے 249 افراد کو پوسٹ مارٹم کے لیے ان تینوں ہسپتال کے مردہ خانے لایا گیا تھا۔

اسی عرصے کے دوران ایک ہزار ایک سو 58 افراد کو گولی لگی اور وہ زخمی ہوئے اور انہیں علاج کے لیے ہسپتالوں میں لایا گیا۔

ڈاکٹر قرار احمد کا کہنا تھا کہ گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ ایک ہزار 158 زخمیوں میں سے بھی کچھ دوران علاج ہوسکتا ہے موت کا شکار ہوگئے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: کورنگی میں کم سن بچی اور بچے کا مبینہ ریپ

واضح رہے کہ بعض اوقات اہل خانہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ حاصل کرنا نہیں چاہتے اور وہ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر ڈاکٹروں کی اجازت کے بغیر لاش کو لے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے 7 برسوں (2013 سے 2019) کے پولیس سرجن کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو صوبائی دارالحکومت کراچی میں 7 ہزار 301 افراد فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

تاہم سالانہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ متاثرین میں واضح کمی دیکھی گئی اور 2013 میں 2 ہزار 191، 2014 میں 2 ہزار 29، 2015 میں ایک ہزار 247، 2016 میں 675، 2017 میں 601، 2018 میں 309 اور 2019 میں 249 افراد آتشی اسلحہ سے متاثر ہوئے۔

اس کے علاوہ 7 برسوں میں 767 افراد ایسے بھی تھے جنہیں سخت، تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔

بم دھماکوں کے متاثرین

اسی طرح پولیس سرجن کے اعداد و شمار کے مطابق شہر میں بم دھماکوں سے ہلاک افراد کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔

مزید پڑھیں: کراچی دھماکے کے پیچھے ’اسلحہ معاہدے کا انتقام‘ خارج از امکان

انہوں نے بتایا کہ 2019 میں بم دھماکے کا کوئی متاثرہ فرد کا کیس رپورٹ نہیں کیا گیا۔

اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں 136، 2014 میں 55، 2015 میں 23، 2016 میں 39، 2017 میں 7 اور 2018 میں 15 افراد دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں