کورونا وائرس کے بارے میں وہ سب کچھ جنہیں جاننا ضروری ہے

کورونا وائرس کے بارے میں وہ انکشافات اور تفصیلات جنہیں جاننا بہت ضروری ہے

فیصل ظفر



چین کے شہر ووہان میں پہلی بار نمودار ہونے والے وائرس سے اب تک 19 ہزار سے زائد ہلاکتیں اور 4 لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں بھی اب اس کے ایک ہزار کیسز کی تصدیق25 مارچ تک ہوچکی ہے۔

اس وائرس کو پہلے عارضی طور پر 2019 نوول کورونا یا این کوو اور اب کوِوڈ 19 کا آفیشل نام دیا گیا ہے، کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارہ صحت نے 31 دسمبر کو بتایا تھا اور جب سے اس کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے تاکہ اس کی روک تھام کے لیے مربوط اقدامات کیے جاسکیں۔

چین کے سائنسدانوں نے اسے وائرس کے ایک خاندان کورونا وائرسز سے جوڑا ہے جس میں 2000 کی دہائی کا خطرناک سارس وائرس بھی شامل ہے۔

سائنسدان اب تک پوری طرح اس نئے وائرس کی تباہ کن صلاحیت کو سمجھ نہیں سکے ہیں جبکہ محققین نے اب اس کی ابتدا، اس کی منتقلی اور پھیلاﺅ کے بارے میں تعین کرنا شروع کیا ہے۔

چین کی جانب سے اس کے پھیلاﺅ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کی خصوصی کمیٹی نے جنوری کے آخری ہفتے میں اسے عالمی سطح پر عوامی ایمرجنسی اور 11 مارچ کو اسے عالمگیر وبا قرار دیا۔

اس وائرس کے بارے میں صورتحال بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب اس پراسرار وائرس کے بارے میں آپ وہ سب کچھ جان سکیں گے جو اب تک سامنے آچکا ہے اور ایسے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن سے آپ اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصہ ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتا ہے اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرس بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے اور پھر انہیں دیگر جگہوں پر بھیجنے لگتا ہے، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کا وائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوتا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی۔ ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرس نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

سارس یا مرس جیسے کورونا وائرس آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتے ہیں، سارس وائرس 2000 کی دہائی کی ابتدا میں سامنے آیا تھا اور 8 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں 800 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

مرس 2010 کی دہائی کے ابتدا میں نمودار ہوا اور ڈھائی ہزار کے قریب افراد کو متاثر کیا جس سے 850 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔

یہ نیا وائرس کہاں سے سامنے آیا؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

2019 نوول کورونا وائرس بظاہر چین کے شہر ووہان کی ہوانان سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔

ووہان ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے اور اس مارکیٹ میں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانوروں جیسے چمگادڑ اور سانپ کا گوشت بھی فروخت کیا جاتا ہے اور وائرس سامنے آنے کے بعد اس مارکیٹ کو یکم جنوری کو بند کردیا گیا۔

ماضی میں پھیلنے والے وبائی امراض میں بھی مارکیٹیں ان کے آغاز اور پھیلاﺅ کا باعث ثابت ہوئی ہیں اور اب تک جن افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر حالیہ ہفتوں میں ووہان سی فوڈ مارکیٹ میں جاچکے تھے، یعنی یہ مارکیٹ وائرس کی ابتدا کے معمے کا اہم حصہ ہے، مگر سائنسدانوں کو فی الحال مختلف تجربات اور ٹیسٹوں کے بعد اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔

طبی جریدے جنرل آف میڈیکل وائرولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں چین کے محققین نے عندیہ دیا تھا کہ سانپوں میں 2019 کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کا باعث بننے والا ممکنہ جاندار ہے، اس مقصد کے لیے انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا موازنہ 2 اقسام کے سانپوں میں چینی کوبرا اور کرایت سے کیا گیا۔ محققین کے مطابق سانپوں کا جینیاتی کوڈ اور اس وائرس میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔

مگر اس تحقیق کے فوری بعد 2 دیگر تحقیقی رپورٹس میں اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس وائرس کو پھیلانے والا جاندار چمگادڑ ہے۔

چین کے ہی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ایک آن لائن مقالے میں کہا کہ انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا موازنہ پہلے کے سارس کورونا وائرس اور چمگادڑ کے دیگر کورونا وائرسز سے کیا اور انہوں گہرائی میں جینیاتی مماثلت کو دریافت کیا۔

یہ وائرس اپنے جینز کے 80 فیصد حصے کو ماضی کے سارس وائرس اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرز کے 96 فیصد حصے سے شیئر کرتا ہے، سب سے اہم بات یہ تھی کہ تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ یہ وائرس خلیات پر بالکل اسی طرح داخل اور کنٹرول کرسکتا ہے جیسا سارس کرتا ہے۔

مگر سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چمگادڑ سے براہ راست یہ وائرس انسانوں تک نہیں پہنچا بلکہ درمیان میں کوئی اور جانور بھی موجود ہے، جس کی شناخت تو ابھی نہیں ہوسکی، مگر پینگولین کا نام لیا جارہا ہے۔

ماضی کی دریافتوں سے قطع نظر اب بھی اس نئے وائرس کی بنیادی حیاتیاتی معلومات کے بارے میں جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے اور پھر مستند طور پر بتایا جاسکے گا کہ کونسا جانور انسانوں میں اس کی منتقلی کا باعث بنا، فی الحال سانپ پینگولینز اور چمگادڑوں کو ہی اس کا سبب سمجھا جارہا ہے۔

اب تک کتنے مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

اب تک چین سمیت 190 سے زائد ممالک میں 4 لاکھ 35 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔

تاہم 4 لاکھ 35 ہزار میں سے ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد ریکور بھی ہوچکے ہیں۔

اس وائرس کے پھیلاﺅ کے لیے ایک آن لائن میپ کو سینٹر فار سسٹمز سائنس اینڈ انجنیئرنگ کے زیرتحت تشکیل دیا گیا جس میں عالمی ادارہ صحت، امریکا، چین اور یورپی ڈیزیز کنٹرولز سینٹرز کے ڈیٹا کے ذریعے ہر وقت اپ ڈیٹ کرتے ہوئے مصدقہ، مشتبہ اور صحت یاب مریضوں کے ساتھ اموات کی تعداد دیکھی جاسکتی ہیں۔

کتنی اموات رپورٹ ہوئیں؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

اب تک 19 ہزار 625اموات اس وائرس کے نتیجے میں ہوچکی ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں 6 ہزار سے زائد ہیں، جس کے بعد اسپین میں 34 سو سے زیادہ اور پھر چین 32 سو سے زائد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، تاہم متعدد ممالک میں اب کووڈ 19 سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

اس نئے کورونا وائرس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

چائنیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینٹیشن نے ووہان میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم بھیج کر اس نئے وائرس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی اور مریضوں کے ٹیسٹ کیے تاکہ اس کنٹرول کرنے کے اقدامات پر غور کیا جاسکے۔

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں اس ٹیم کے نتائج کو شائع کیا گیا جن کے مطابق 3 مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو استعمال کرکے جینیاتی کوڈ پر تحقیق کی گئی اور اس کے بعد ٹیم پہلی بار ناول کورونا وائرس کو دیکھنے اور جینیاتی طور پر شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جینیاتی کوڈ کو سمجھنے سے سائنسدانوں کو 2 پہلوﺅں کے بارے میں سمجنے میں مدد مل سکے گی، یعنی انہیں ایسے ٹیسٹ بنانے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے جو مریضوں کے نمونوں میں اس وائرس کی شناخت کرسکے اور ویکسین یا طریقہ علاج کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

یہ وائرس کس طرح پھیل رہا ہے؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

یہ ایسا ہم سوال ہے جس کے جواب کے لیے سائنسدانوں سخت محنت کررہے ہیں، ایسا مانا جارہا ہے کہ پہلی بار یہ انفیکشن جانور سے انسان میں منتقل ہوا، مگر اس کے بعدیہ ایک سے دوسرے انسان میں یہ منتقل ہورہا ہے۔

مینیسوٹا یونیورسٹی کے Infectious ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی کے مطابق چین میں ہیلتھ ورکرز اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، سارس کی وبا پھیلنے کے دوران یہ نمایاں نقطہ ثابت ہوا تھا کیونکہ ہیلتھ ورکرز ایک سے دوسرے ملک جاتے ہوئے اس بیماری کو پھیلاتے رہے۔

چینی انتظامیہ نے طبی عملے میں وائرس کی تصدیق کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا خدشہ ہسپتالوں میں وبا کا پھیلنا ہوسکتا ہے جو سارس اور مرس کورونا وائرسز میں بھی دیکھا گیا تھا، اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔

ووہان میں حکام نے مریضوں کے علاج کے لیے ایک ہزار بستروں کا ہسپتال صرف 10 دنوں میں تعمیر کردیا ہے کیونکہ اس وقت ہسپتالوں میں گنجائش کی کمی کا سامنا ہے۔

چین نے وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے ووہان شہر کو ہی مکمل طور پر بند کردیا اور سفری پابندیاں عائد کی گئیں جن کا اطلاق بعد میں 4 اور پھر 8 مزید شہروں تک کیا گیا۔

یہ پابندیاں اس وقت عائد کی گئیں جب چین میں نئے قمری سال کا آغاز ہوا، اس موقع پر چینی شہروں میں لوگوں کی نقل و حمل میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، بیجنگ میں اہم تقریبات کو منسوخ کیا گیا اور یہ تمام پابندیاں اور بندشیں غیرمعینہ مدت تک برقرار رہیں گی۔

چینی حکومت نے یہ عندیہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس علامات کے نمودار ہونے سے قبل ہی ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے، کیونکہ مرض ظاہر ہونے سے پہلے کی علامات ایک سے 14 دن تک ظاہر نہیں ہوتیں اور اس وقت تک مریض خود کو صحت مند سمجھتا ہے، اس حوالے سے سائنسدانوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایسا ممکن ہے اور چین میں ایک خاتون نے اسی طرح اپنے 5 رشتے داروں کو بھی وائرس کا شکار کیا، حالانکہ اس خاتون میں وائرس کی علامات کبھی ظاہر نہیں ہوئیں۔

یہ کورونا وائرس کس حد تک متعدی ہے؟
شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرض کا شکار فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا، مختلف تحقیقی رپورٹس میں 2019 نوول کورونا وائرس کے لیے 1.4 سے 3.8 ویلیو دی گئی ہے اور یہ فی الحال ابتدائی تخمینہ ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہری ایرک فیگی ڈینگ نے ایک ٹوئٹ میں اسے 3.8 ویلیو دی تھی۔

سائنسدان ابھی اس مرض اور اس کے پھیلاﺅ کو سمجھنے کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں اور تحقیقی رپورٹس فی الحال معلوماتی ہیں اور انہیں حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے مگر اس سے شرح اموات سارس کی وبا کے مقابلے میں بہت کم ہے جبکہ 80 فیصد مریضوں میں اس کی معتدل علامات نمودار ہوئیں اور سنگین کیسز ایسے لوگوں کے سامنے آئے جن کی عمر زیادہ تھی یا وہ پہلے ہی کسی مرض کا شکار تھے۔

علامات کیا ہیں؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

اس نئے کورونا وائرس کی علامات ماضی میں امراض پھیلانے والے کورونا وائرسز سے ہی ملتی جلتی ہیں اور اس وقت جن افراد میں اس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے بیشتر کو نمونیا جیسی علامات کا سامنا ہوا جبکہ کچھ میں زیادہ سنگین ردعمل بھی دیکھا گیا۔

24 جنوری کو معتبر طبی جریدے دی لانسیٹ میں اس مرض کے کلینیکل فیچرز پر تفصیلی تجزیہ شائع کیا گیا تھا اور اس رپورٹ کے مطابق مریضوں میں درج ذیل علامات سامنے آسکتی ہیں:

بخار، جسمانی درجہ حرارت بڑھ جاتا

خشک کھانسی

تھکاوٹ یا مسلز میں تکلیف

سانس لینے میں مشکل

اس کی کم نمایاں علامات درج ذیل ہیں :

کھانسی میں بلغم یا خون آنا

سردرد

ہیضہ

جب یہ مرض بڑھتا ہے تو مریضوں میں نمونیا کی تشخیص ہوتی ہے جس میں پھیپھڑے ورم کے شکار اور پانی بھرنے لگتا ہے، اس کو ایک ایکسرے میں دیکھا گیا اور تحقیق میں شامل 41 مریضوں میں اسے دیکھا گیا۔

عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں چین میں 55 ہزار سے زائد کیسز کے تجزیے کے بعد اس کی علامات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

اس کی سب سے عام علامات اور مریضوں میں اس کی شرح درج ذیل ہیں:

بخار 88 فیصد

خشک کھانسی 68 فیصد

تھکاوٹ 38 فیصد

تھوک کے ساتھ کھانسی یا گاڑھے بلغم کے ساتھ 33 فیصد

سانس لینے میں مشکل 19 فیصد

ہڈی یا جوڑوں میں تکلیف 15 فیصد

گلے کی سوجن 14 فیصد

سردرد 14 فیصد

ٹھنڈ لگنا 11 فیصد

قے یا متلی 5 فیصد

ناک بند ہونا 5 فیصد

ہیضہ 4 فیصد

کھانسی میں خون آنا ایک فیصد

آنکھوں کی سوجن ایک فیصد

چین کی ووہان یونیورسٹی کے زہونگنان ہسپتال کی فروری میں ہونے والی ایک تحقیق میں 140 کے قریب ہسپتال میں داخل مریضوں میں اس وائرس کی علامات اور دیگر عناصر کا جائزہ لینے کے بعد محققین نے بتایا کہ اس وائرس کی سب سے عام ابتدائی علامت بخار ہے جو تحقیق میں شامل 99 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آئی۔

کیا اس کا کوئی علاج موجود ہے؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کو بہت سخت جراثیم قرار دیا جاتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام میں موثر طریقے سے چھپ جاتے ہیں اور اب تک ان کے لیے کوئی قابل بھروسہ طریقہ علاج یا ویکسین تیار نہیں ہوسکی ہے جو ان کا خاتمہ کرسکے، بیشتر کیسز میں طبی عملہ اس کی علامات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک ریان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی طریقہ علاج موجود نہیں، کورونا وائرس سے متعلق وبا کے حوالے سے مریضوں کو مناسب نگہداشت خصوصاً نظام تنفس سپورٹ اور اعضا کی سپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ ویکسین کی تیاری ناممکن ہے، چینی سائنسدانوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا سیکونس بنانے میں انتہائی تیزی سے کام کیا، جس سے سائنسدانوں کو اس حوالے سے تحقیق اور اس پر قابو پانے کے ذرائع پر غور کرنے کا موقع ملے گا۔

امریکا میں اس حوالے سے ایک تجرباتی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش بھی شروع ہوچکی ہے، مگر اسے متعارف کرانے میں ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 8 ہزار افراد کو متاثر کرنے والے سارس وائرس کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ایک مخصوص راستے پر چلتا ہے اور پھر لگ بھگ غائب ہوجاتا ہے، ایسی ویکسین نہیں جو اس وائرس کا خاتمہ کرے بلکہ ممالک کے درمیان موثر رابطے اور احتیاطی تدابیر اس کے پھیلاﺅ کو روکنے میں مدد دیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہم یہ جان چکے ہیں کہ وبائی امراض کو ادویات یا ویکسین کے بغیر کنٹرول کیا جاسکتا ہے، جس کے لیے نگرانی کے عمل کو بڑھانے، مریضوں کو صحت مند افراد سے الگ کرنے، ان کے رابطوں کی ٹریکنگ، خطرے کے حوالے سے ذاتی احتیاط اور انفیکشن کنٹرول اقدامات سے مدد لی جاسکتی ہے۔

متعدد ادویات کو اس حوالے سے ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

فلو کے لیے استعمال ہونے والی دوا فیویپیراویر جاپان میں فلو کے لیے تیار ہونے والی اس دوا کو چین میں 340 مریضوں پر آزمایا گیا۔

جن مریضوں کو یہ دوا استعمال کرائی گئی ان میں ٹیسٹ مثبت آنے کے 4 دن بعد وائرس ختم ہوگیا، جبکہ اس دوا کے بغیر مرض کی علامات کے لیے دیگر ادویات کے استعمال سے صحت یابی میں اوسطاً 11 دن درکار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایکسرے سے بھی اس نئی دوا کے استعمال سے 91 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کی حالت میں بھی بہتری کی تصدیق ہوئی، جبکہ دیگر ادویات میں یہ شرح 62 فیصد کے قریب ہوتی ہے۔

اس دوا کو فیوجی فلم ٹویاما کیمیکل نے 2014 میں تیار کیا تھا تاہم اس نے چینی دعویٰ پر کوئی بیان جاری کرنے سے انکار کیا۔

ایبولا کے لیے تیار ہونے والی ریمڈیسیویر اس دوا کو بنیادی طورر پر ایبولا کے علاج کے لیے تیار کیا گیا تھا مگر یہ نئے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اہم ترین دوا کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

سارز اور مرس جیسے کورونا وائرسز کے خلاف اسے موثر پایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے چین اور اس کے بعد امریکا اور ایشیا کے مختلف ممالک میں اس دوا کے استعمال پر متعدد ٹرائلز ہورہے ہیں، جن کے نتائج اپریل میں آنا شروع ہوں گے۔

ایچ آئی وی کے لیے تیار ہونے والی کالیٹرا یہ بنیادی طور پر دو اینٹی وائرل ادویات لوپیناویر اور ریٹوناویر کا امتزاج ہے جو ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، مختلف رپورٹس میں اسے کووڈ 19 کے علاج کے لیے بھی حوصلہ افزا انتخاب قرار دیا گیا۔

تاہم گزشتہ دنوں یہ توقعات اس وقت ماند پڑگئیں جب 200 سنگین حد تک بیمار مریضوں میں اس کے استعمال سے کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوسکا، تاہم یہ تحقیق اس دوا کی آزمائش کے لیے حتمی نہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ دوا معتدل علامات والے مریضوں میں زیادہ موثر ہو۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے مختلف ممالک میں ادویات کی ٹرائل کی فہرست میں اسے بھی شامل کیا ہے جو اس ہفتے ہی شروع ہورہا ہے۔

اینٹی باڈی تھراپیز چین میں ڈاکٹر نے کچھ سنگین حد تک بیمار مریضوں کا علاج صحت مند مریضوں کے بلڈپلازما سے کیا اور یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی تاریخ اسپینش فلو کی عالمی وبا سے جاملتی ہے، جو 1918 میں سامنے آی تھی۔

اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ وائرس کے شکار افراد کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو اس انفیکشن کی روک تھام میں مدد دے سکتی ہیں۔

امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے زور دیا کہ اس طریقہ کار کو اپنانے کے لیے کوئی تحقیق یا پیشرفت کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے چند ہفتوں میں اپنایا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں روایتی طریقہ کار انحصار کرنا ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس مقصد کے لیے کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو صحت یابی کے بعد خون کا عطیہ دینا ہوگا، اگرچہ یہ بحالی صحت کا مرحلہ ہوتا ہے مگر اس دوران بلڈ سیرم (خون کا پلازما) میں بڑی مقدار میں ایسی اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو اس نئے کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں۔

ایک بار جب جسم وائرس کے خلاف ردعمل کے قابل ہوجائے گا تو ایسی اینٹی باڈیز کئی ماہ تک خون میں گردش کرتی رہیں گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ دورانیہ انفیکشن کے بعد کئی برسوں کا ہو۔

محققین کے خیال میں یہ طریقہ کار صرف صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ان اینٹی باڈیز کو ایکسرٹ اور پراسیس کرنے کے بعد دیگر افراد کے جسموں میں انجیکٹ کرکے انہیں مختصر المدت تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، جیسے کسی سنگین بیماری کے شکار افراد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، متاثرہ فرد کے صحت مند گھروالوں کے لیے یا طبی عملے کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انٹرفیرون بیٹا برطانیہ کی بائیوٹیک کمپنی Synairgen کو کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے پھیپھڑوں کے امراض کی دوا کی منظوری دی گئی۔،

اس دوا میں موجود مرکب انٹرفیرون بیٹا پھیپھڑوں کے وائرس کے خلاف قدرتی دفاعی نظام سے تشکیل دیا گیا ہے اور بنیادی طور پر اسے پھیپھڑوں کے مرض سی او پی ڈی کے لیے تیار کای گیا تھا۔

مگر ماہرین کو توقع ہے کہ یہ دوا جسم کی وائرس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کو بہتر بنائے گی، خصوصاً ایسے افراد کے لیے مفید ہوگی جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوگا۔

شرح اموات کس حد تک ہوسکتی ہے؟

اس وائرس سے دنیا بھر میں لوگوں کو ذہنی پریشانی کا سامنا ہوا ہے مگر بظاہر یہ وائرس سارس جتنا جان لیوا نہیں، جس کے نتیجے میں 2002 سے 2003 میں 774 ہلاک ہوئے تھے اور اموات کی شرح 9.6 فیصد تھی جبکہ اس نئے کورونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد سارس کے 8 ماہ کی مجموعی تعداد سے ایک ماہ کے اندر ہی زیادہ ہوگئی مگر شرح اموات 2 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔

درحقیقت چینی حکام نے بتایا ہے کہ اس وائرس کے شکار متعدد افراد مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں اور جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں وہ یا تو بزرگ تھے یا دیگر بیماریوں کے شکار تھے جن کے باعث ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوچکا تھا۔

طبی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے لوگوں میں خدشات اور خوف پایا جاتا ہے مگر کچھ عناصر ہیں جو اس میں کمی لاسکتے ہیں، پہلا تو یہی ہے کہ اس کی تشخیص اور تعین بہت تیزی سے ہوا، درحقیقت اس کی دریافت کے ایک ہفتے بعد ہی چینی حکام نے وائرس کا سیکونس حاصل کرلیا تھا اور دنیا بھر کی لیبارٹریز سے شیئر کیا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

دوسری چیز طبی ٹیکنالوجی میں 1960 کی دہائی میں کورونا وائرس کی دریافت کے بعد سے ہونے والی پیشرفت ہے جو لیبارٹریز اور وائرس کے ماہرین کو زیادہ گہرائی میں جاکر کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ صرف امریکا میں سیزنل فلو اس نئے کورونا وائرس سے زیادہ بڑا خطرہ جس سے گزشتہ 4 ماہ میں کم از کم ڈیڑھ کروڑ امریکی شہری متاثر ہوئے جبکہ 20 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔

آپ اس کے خطرے کو کیسے کم کریں؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

چین کے بعد متعدد ممالک میں اس کے کیسز سامنے آچکے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ 2019 نوول کورونا وائرس مزید ممالک تک پھیل جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے لوگوں کو اپنے تحفظ کے حوالے سے متعدد اقدامات کا مشورہ دیا ہے تاکہ اس سے بچ سکیں۔

اس مقصد کے لیے ہاتھوں اور نظام تنفس کی اچھی صفائی قابل ذکر ہے، آسان الفاظ سے ہر وہ کام جو آپ فلو یا نزلہ زکام کا خطرہ کم کرنے کے لیے کرتے ہیں، وہ اس کورونا وائرس سے بھی تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

یعنی اپنے ہاتھوں کو کم از کم 20 سیکنڈ تک صابن اور پانی سے دھوئیں۔

گندے ہاتھوں سے منہ، آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔

کھانسی اور چھینک کے دوران اپنے منہ اور ناک کو ٹشو سے ڈھک لیں اور پھر اس ٹشو کو کچرے میں پھینک دیں۔

ایسے افراد سے ذرا دور رہیں جن میں سانس کے امراض جیسے کھانسی اور چھینکوں کی علامات نظر آئیں۔

جن چیزوں کو اکثر چھوتے ہیں، ان کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

کچی یا ناقص طریقے سے پکی غذا سے گریز کریں۔

اگر نزلہ زکام یا فلو جیسی علامات کے شکار ہیں تو بغیر کسی تاخیر کے ماسک کو پہن لیں اور ڈاکٹر سے مزید احتیاطی تدابیر کے بارے میں پوچھیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اس بارے میں ایک ٹوئٹ میں تفصیلی معلومات بھی فراہم کی ہے۔