میں وئی کہوں کہ بھیے! اتنے اچھے، دیانتدار، باصلاحیت، لاجواب حکمراں، گویا ’چُنے‘ ہوئے دانے، کوئی مانے یا نہ مانے، جس طرح ’شبیر تو دیکھے گا‘ اسی طرح عثمان تو مانے گا، لیکن پھر بھی سب کیا، یہاں تو کچھ بھی ٹھیک کیوں نہیں ہوریا؟

چچا آس سے امید یقینی سے اس مشکل سوال کا جواب جاننا چاہا۔ چچا کے بارے میں یہ بتادیں کہ موجودہ حکومت سے ان کی محبت اور محبت سے بڑھ کر امید اس درجے کی ہے کہ اکثر کچھ کھٹا کھاتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے سوال کے جواب میں پہلے تو انہوں نے کچھ ’صابر، شاکر‘ اور حکومت پر ’نثار‘ صحافیوں کو چھوڑ کر پورے میڈیا کے لَتّے لیے، پھر پچھلی حکومتوں کی خبر لی، آخر میں ففتھ جنریشن وار اور اندورنی بیرونی سازشوں سے پردہ اٹھانے کے بعد (جو پردہ اٹھا کر بھی انہیں ہی نظر آئیں) کہنے لگے ’میاں! ایک بات اور بھی ہے، تم نے وہ شعر تو سنا ہوگا

پہلے پہل کا عشق عجب ہوتا ہے فراز

دل خود ہی چاہتا ہے کہ رسوائیاں بھی ہوں

تو ان کی بھی پہلے پہل کی حکومت ہے، ان کا بھی یہی دل چاہ رہا ہے‘۔

ہم نے حیرت سے پوچھا، ‘چچا! سب صحیح، مگر کوئی حکومت اپنی رسوائی، بلکہ اتنی روسیاہی کیوں چاہے گی؟’

بولے، ’ارے میاں تم روحانیت کے راز کیا سمجھو، تصوف کے فرقہ ملامتیہ کو کیا جانو۔ یاد رکھو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ، سکون صرف قبر میں ہی ملنا ہے پیارے۔ یہ حکومت لوگوں کو تصوف کی طرف مائل کر رہی ہے’۔

ہم نے سر جھکا کر عرض کیا، ’اچھا، اسی لیے یہ اتنا گھائل اور اچھے اچھوں کو سائل کر رہی ہے’۔

چچا آس سے امیدی یقینی ہی کی بات سُن کر ہم خاصے مطمئن ہوگئے تھے کہ اب وزیرِاعظم عمران خان نے بتادیا کہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے، بس اتنا کرنا ہوگا کہ لوگ اخبار پڑھنا اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ دیں۔ خان صاحب کے فرمائے ہوئے اصل الفاظ ہیں، ’حکومت کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے، اس لیے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اخبار نہ پڑھیں اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز ہرگز نہ دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا’۔

مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں تو تبدیلی آگئی مگر میڈیا میں نہیں آئی۔ ہوا یوں کہ ساری کی ساری تبدیلی ملک میں آگئی، میڈیا کے لیے تھوڑی سی بھی نہیں بچی، چنانچہ یہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پہلے بھی حکومت پر تنقید کرتا تھا اور اب بھی کر رہا ہے۔ مگر وہ تو نوازحکومت تھی، انصاف کا تقاضا کچھ بھی ہو لیکن تحریک انصاف کا تقاضا ہے کہ اب میڈیا کو ‘حکومت نواز’ ہوجانا چاہیے اور وزیروں کے سُر کے ساتھ ساز بجانا چاہیے۔

ہم وزیراعظم کے بیان کی مکمل تائید کرتے ہیں، سارے فساد کی جَڑ ٹاک شوز ہی ہیں۔ ان کی وجہ سے خواتین ڈرامے دیکھ نہیں پاتیں اور حکومتی ڈرامے چل نہیں پاتے۔ یوں بھی پیٹرول نہایت سستا ہونے اور تمام اشیا انتہائی کم قیمت ہونے کے باعث لوگ پورا پورا دن سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے اور جگہ جگہ خریداری کرتے رہتے ہیں، تھکے ہارے گھر پہنچ کر ٹی وی کھولتے ہیں تو سامنے مہنگائی کا رونا روتے ٹاک شوز ہوتے ہیں، جو تھکن دُور کرنے کے بجائے بڑھا دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کو چاہیے کہ ٹاک شوز ختم کرکے ‘خبروں سے پاک شوز’، ‘حقائق پر ڈالو خاک شوز’ اور ‘سرکار کی دھاک شوز’ شروع کریں۔

خیال رہے کہ قافیہ پیمائی کے چکر میں کوئی چینل ‘ٹِک ٹاک شو’ شروع نہ کردے! ‘سب ٹھیک ہونے’ تک لوگوں کو زمین کے معاملات سے بے گانہ رکھنے کے لیے ‘افلاک شوز’ کی شروعات بھی کی جاسکتی ہے اور حکومت کی ناک کٹنے سے بچائے رکھنے کے لیے ‘ناک شوز’ کا آغاز بھی کیا جاسکتا ہے۔

پنجابی فلم ‘جٹ دا کھڑاک’ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کے کارناموں پر مشتمل ‘حکومت دا کھڑاک شوز’ کا آئیڈیا بھی بُرا نہیں۔ ہولناک اور خوفناک شوز پیش کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جن کے موضوعات ہوں مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ قبر میں بھی ‘سکون’ نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟وغیرہ۔

کیا اچھا ہو کہ ٹاک شوز کی جگہ ‘ٹاک شُوز (shoes) یعنی ‘بولتے جوتے’ کا سلسلہ شروع ہوجائے، لو جی مسئلہ ہی حل ہوا۔ ایک وفاقی وزیر ٹاک شو میں جوتا لاکر دراصل یہ تصور پیش کرچکے ہیں۔ بس جوتے بھاری ہونا چاہئیں تاکہ آواز آئے۔

چینل کچھ بھی کریں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم کا روئے سُخن عوام کی طرف ہے، چنانچہ عوام کو ان کی ہدایت مانتے ہوئے ٹاک شوز دیکھنا ترک کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان شوز کے دورانیے میں لوگ دیکھیں تو کیا دیکھیں؟

فکر نہ کریں دیکھنے کو بہت کچھ ہے، کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ، جب یہ سب دیکھ کر پتا چل جائے کہ کہیں تبدیلی نہیں آئی تو لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھیں، اور پھر ایک دوسرے سے کہیں ‘دیکھتا کیا ہے مِرے منہ کی طرف قائدِاعظم کا پاکستان دیکھ’، بجلی اور گیس کے بِل دیکھیں، جس کے لیے بڑی ہمت چاہیے، لہٰذا لوگ بل ہاتھ میں تھام کر کہہ اُٹھیں گے ‘یہ کاغذی’ ہے، مگر دیکھنے کی تاب نہیں اور منہ موڑ کر ایک طرف رکھ دیں گے، (منہ نہیں بِل)

چلیے سب ٹھیک ہونے کے لیے ٹاک شوز سے جان چُھڑانے کا مسئلہ تو حل ہوا، اب آتے ہیں اخبارات کی طرف۔ اگرچہ خان صاحب نے سِرے سے اخبار پڑھنے کی ممانعت کی ہے، لیکن اگر سِری استعمال کی جائے تو دراصل ان کا اشارہ صرف خبروں کی طرف ہے۔ اخبارات میں پڑھنے کو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی واسطہ نہیں، جیسے موسم کا حال، پرنٹ لائن، ضرورت رشتہ کے اشتہارات، ان میں سے بھی طلاق یافتگان کے اشتہار پڑھنے سے گریز کریں کہیں آپ کا ذہن بھٹک کر کسی اور طرف نہ چلا جائے۔

ایسے کالم بھی قطعی ضرر رساں نہیں جو حالاتِ حاضرہ پر ہونے کے بجائے محض حاضری لگانے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ ان میں حالاتِ حاضرہ کی جگہ ماضی کا ماجرا، کسی امیر کی غربت سے امارت تک کے لیے کی جانے والی ‘ریاضت’ کا تذکرہ یا اپنی محنت، تعلقات اور صلاحیت کا احوال فاخرہ ہوتا ہے۔ بس اتنا پڑھنا کافی ہے، باقی سب اضافی ہے، اس کے بعد اخبار کا دسترخوان بنائیں، الماری کے تختے پر بچھائیں یا اسے ٹشو پیپر کے طور پر آزمائیں آپ کی مرضی۔

اخبارات کا بھی فرض ہے کہ وہ ‘سب ٹھیک’ کرنے کی مہم میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اگر خبریں اور حالاتِ حاضرہ سے متعلق کالم و مضامین شائع نہ ہوں تو کون سی قیامت آجائے گی! عوام کو ہنسانے کے لیے لطیفے چھاپیں، وزیرِاعظم کی تقاریر سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے، ٹوٹکے شائع کریں، ‘کئی دن سے مجھے بھولے ہوئے ہو اے میرے پھول کیا پھولے ہوئے ہو’ جیسے رومانوی اشعار چھاپ کر نئے نویلے عاشقوں کا بھلا کریں۔

یہ سب کرنے کے بعد جب سب ٹھیک ہوجائے پھر چاہے چینل ‘سب ٹھیک ٹھاک شوز’ چلائیں یا اخبارات ٹھوک بجا کر ٹھیک ٹھیک خبریں لگائیں، ہمیں اعتراض ہوگا نہ وزیرِاعظم کو۔

تبصرے (2) بند ہیں

زاہد بٹ Feb 12, 2020 11:26am
بہت خوب۔ شکریہ کالم پڑھ کر دل مُسکرایا بھی اور دل کی بات بھی شائع کر دی آپ نے۔
عائزہ کامران Feb 12, 2020 05:48pm
ٹک ٹاک شوز کی تجویز اچھی ہے۔ ویسے آج کل ٹک ٹاک سے حکومت گھبراتی بہت ہے۔