لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔
لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں بننے والی پالیسیاں ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کا کام سرانجام دیتی ہیں، جبکہ اگر ترقی پذیر ممالک کا ذکر کریں تو وہاں الیکٹیبلز مقامی قبائل یا خاندانوں کو پُرکشش وعدوں کے ذریعے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی سعی کرتے ہیں۔

سماجی تعلقات کی بنیاد پر بننے والا یہ ووٹ بینک خاندان کے اندر ہی رہتا ہے اور ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا جاتا ہے اور یوں موروثی یا خاندانی سیاست جنم لیتی ہے۔

سرپرستی کا جال مقامی سے قومی سطح تک پھیلا ہوتا ہے، یہی جال اکثر و بیشتر خاندانی تعلقات کے ذریعے مقامی سطح کے الیکٹیبلز کو قومی سطح کے الیکٹیبلز سے جوڑتا ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کا اپنا الگ ووٹ بینک بھی ہوتا ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ ووٹ بینک ان جماعتوں کی پالیسیوں یا کارکردگی کی بنیاد پر وجود میں نہیں آتے بلکہ اس کے پیچھے جماعتوں کے اعلیٰ لیڈران کی شخصیت پرستی کارفرما ہوتی ہے۔ چنانچہ زیادہ تر جماعتیں اعلیٰ لیڈران کے خاندانی یا موروثی سیاسی سلسلے اور ان کی شخصیت پرستی کی مدد سے انتخابی فتح حاصل کرتی ہیں۔

اقتصادی تضاد سیاسی تضاد کی وجہ بنتا ہے۔ ترقی یافتہ ریاستیں مہنگی مصنوعات تیار کرتی ہیں جس کے لیے انہیں تعلیم یافتہ لیبر درکار ہوتی ہے۔ یوں وہاں معاشی و سیاسی میدان میں میرٹ کی بالادستی قائم ہوتی ہے اور کسی شخص کی انفرادی ترقی کا دار و مدار اس کے علم پر ہوتا ہے۔

مگر ترقی پذیر ممالک سستی مصنوعات تیار کرتے ہیں اور پیداواری اداروں یا صنعت مالکان کو میرٹ سے زیادہ ذاتی وفاداری درکار ہوتی ہے۔ یہاں اقتصادی و سیاسی میدان میں سرپرستی کی روش غالب ہے اور کسی شخص کی انفرادی ترقی کا دار و مدار اس شخص کے زیادہ تعلقات پر ہوتا ہے۔

فطرتاً بدعنوان سرگرمیاں چھوٹی معیشتوں میں ہی جنم لیتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی لالچ نہیں ہے، بلکہ اس پورے معاملے میں اصل غلطی ان کاروباری حضرات کی ہوتی ہے کم منافع اور مشکل مقابلے کے پیش نظر سخت قوانین کو بائی باس کردیتے ہیں اور یوں بدعنوان سرگرمیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔

آج کے ترقی یافتہ ممالک میں جتنے بھی قوانین نافذ ہیں، وہ سب مقامی حالات اور حقائق سے موافقت کے ساتھ فطری طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ تاہم ترقی پذیر ممالک نے جلد بازی اور زمینی حقائق کے برخلاف ترقی یافتہ ریاستوں کے قوانین اپنے ہاں نافذ کردیے۔

پھر کاروبار کرنے والے اور منافع کمانے والے ان قوانین کو بائی پاس کروانے کے لیے ریاستی افسران کو رشوت کی پیش کش کرتے ہیں۔ افسران ان کی بات مان جاتے ہیں اور رقم کو سرپرستوں میں بانٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور امیر بن جاتے ہیں۔ رشوت خوری یا بدعنوانی کی دیگر صورتیں بھی ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں۔

چنانچہ ترقی پذیر ممالک میں سخت اور پیچیدہ سیاسی و اقتصادی نظام نظر آتے ہیں، اور جن حصوں پر یہ نظام ٹکے ہوتے ہیں ان میں سے کسی بھی حصے کو بدلنے کی کوشش کرنے کے لیے پورے نظام کے گرنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔

غم و غصے کا شکار متوسط طبقہ یہ چاہتا ہے کہ سیاستدانوں کے بے رحمانہ احتساب کے ذریعے سیاسی موروثیت اور بدعنوانی کو جلد سے جلد ختم کیا جائے، اور وہ اس بھول کا شکار ہیں کہ اس طرح حالات بہتر ہوجائیں گے، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے انجام سے اقتصادی اور سیاسی افراتفری جنم لے سکتی ہے۔

کیونکہ پھر ایک طرف اقتصادی ایجنٹوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوپائیں گی اور یوں اقتصادی افراتفری کی راہ ہموار ہوگی، بلکہ دوسری طرف الیکٹیبلز اور عوام کی سرپرستانہ ضروریات بھی پوری نہیں ہوپائیں گی، جس کے باعث سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا۔

ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں بدعنوانی کو روکنے کے لیے بلا غور و فکر ضرورت سے زیادہ سخت گیر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ مثلاً بھارت میں نوٹ بندی کا فیصلہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے شروع کی گئیں احتساب کی کوششیں انہی اقدامات کی مثالیں ہیں۔

اکثر لوگوں کو یہ تصور کافی پُرکشش لگتا ہے کہ ایماندار سیاستدان اپنی بہترین پالیسیوں کے ذریعے تھوڑے ہی وقت میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے، لیکن اس پُرکشش تصور کا ثبوت عالمی منظرنامے پر دکھائی نہیں دیتا۔ جہاں ایماندار اعلیٰ رہنماؤں نے اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن اپنے ملک کو ترقی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔

یہی معاملہ آج پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ہے۔ حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی کرنے والی ریاستوں نے یہ ترقی بدعنوانی اور موروثی سیاست کو ختم کرکے حاصل نہیں کی بلکہ ان سب کی موجودگی کے باوجود حاصل کی ہے۔

سیاسی معیشت کی عینک سے جائزہ لیں تو یہ سبق بدعنوانی کے خلاف پالیسیوں کو ترقی کے اہم محرکین کے طور پر دیکھنے سے تو خبردار کرتا ہے لیکن بدعنوانی کے مسئلے کو قانونی مسئلے کے طور پر نمٹنے سے خبردار نہیں کرتا اور ویسے بھی بنیادی طور پر یہ ایک قانونی مسئلہ ہی ہے۔

مگر عالمی قانونی اصولوں کی عینک سے جائزہ لینے پر بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ احتساب کے عمل میں ٹھوس قانونی عمل شامل ہونا چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو چند سیاستدانوں کو ہی سزا سنائی جاسکے گی۔ چنانچہ دونوں سیاسی معیشت اور قانون کی عینکوں سے جائزہ لینے پر ایک بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ کرپٹ موروثی سیاست کا فوری خاتمہ نہایت کٹھن امر ہے۔ لہٰذا زیادہ تر غریب غیر تعلیم یافتہ افراد کی کرپٹ سرپرستانہ سیاست کے برانڈ کو جائز ٹھہرانے کی معمولی سی گنجائش نکل آتی ہے۔

تاہم تعلیم یافتہ متوسط طبقے کا ذہن ایسی سیاست سے نفرت کرتا ہے اور اس سے بہتر سیاست چاہتا ہے۔ مگر پھر ہمیں اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد ایسی بھی نظر آتی ہے جس کی سوچ کو درست قرار دینے کی معمولی سی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو الطاف حسین اور موجودہ وقت میں عمران خان جیسے کرشماتی ’مسیحاؤں‘ کی سیاسی شخصیت پرستی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی توجہ کا محور پالیسیاں اور اہلیت نہیں بلکہ مسیحاؤں کے بارے میں بتائی گئی وہ مافوق الفطرت خوبیاں ہوتی ہیں جن سے طلسماتی طور پر ملک کی تقدیر بدلنے کی توقع کی جاتی ہے۔

اور کہیں پھر متوسط طبقات متعصب شخصیات کے دیوانہ وار مداح پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف پڑھے لکھے لوگ نظامِ حکومت سے چھیڑ چھاڑ کی نصیحیتیں کرتے پھرتے ہیں، کبھی صدارتی نظام، متناسب نمائندگی اور کبھی تو ٹیکنوکریٹک اور تو اور آمرانہ نظام کی بھی حمایت کررہے ہوتے ہیں جو کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ اچنبھے کی بات ہے کہ ہمارے امیر اور پڑھے لکھے طبقے کی سیاست غیر تعلیم یافتہ غریبوں کی سیاست سے بھی بدتر ہے۔

سیاست کا وہ برانڈ جو سب سے زیادہ امید افزا ہے لیکن جس کی پیروری بہت ہی کم لوگ کرتے ہیں وہ حقوق پر مبنی بائیں بازو کی سیاست ہے جو عوامی ورکرز پارٹی جیسی چھوٹی جماعتوں میں نظر آتی ہے۔ غربا اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس سیاست کو اپنا نہیں سکتے تو تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی فہم کی کمی کے باعث اس سیاست کو اختیار نہیں کرتا۔

چنانچہ کم از کم مستقبل قریب میں تو موروثی سیاست، شخصیت پرستی پر مبنی سیاست اور متعصب سیاست کے سیاسی برانڈز کا بول بالا رہے گا۔

موروثی سیاست سب سے کم بُری سیاست ہے۔ اگر مصنوعی طور پر ہی اس کا خاتمہ لایا جاتا ہے تو بھی اس کی جگہ اعلیٰ سیاست کے بجائے شخصیت پرست پر مبنی سیاست، فاشسٹ سیاست اور/یا متعصب سیاست گھیر لے گی، لہٰذا آپ بھٹوؤں اور شریفوں سے ان کی خراب حکمرانی اور کرپشن کے باعث نفرت تو کرسکتے ہیں لیکن دھاندلی اور مقدمات کے ذریعے مصنوعی طور پر انہیں منظرنامے سے ہٹانے کی کوشش کے سبب زیادہ بُری حکمرانی اور سیاسی عدم استحکام کی راہیں ہموار ہوں گی، جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں۔


یہ مضمون 11 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Sutan Feb 14, 2020 02:59pm
Thanks this is a good column and we discussed this issue many times . But what is the solution.
شہزاداقبال Mar 07, 2020 06:37pm
نہایت اچھی تحریر۔۔۔ پرمغز اور غور طلب باتیں جن پر سیاسی اشرافیہ سمیت ہم سب کو ضرور سوچنا چاہئے