کامیاب ’پاکستان سپر لیگ‘ (پی ایس ایل) کا سفر اپنے پانچویں سیزن میں داخل ہونے کو ہے۔ 2016ء میں متحدہ عرب امارات کی زمین پر جب اس لیگ کا آغاز ہوا تو پاکستانی شائقینِ کرکٹ کی خواہش تھی کہ دیسی لیگ دیس کے میدانوں پر کھیلی جائے، اور اچھی بات یہ ہوئی کہ شائقین کی یہ خواہش مرحلہ وار پوری ہوتی گئی۔

2017ء میں سب سے پہلے لاہور میں فائنل کھیلا گیا، پھر 2018ء میں 3 میچ پاکستان میں منعقد ہوئے، اس کے بعد صورتحال مزید کچھ بہتر ہوئی تو 2019ء 8 میچ کراچی اور لاہور کے میدانوں میں شیڈول ہوئے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے سبب لاہور میں کوئی بھی میچ نہیں کھیلا جاسکا اور یہ سارے میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے۔

لیکن اس بار ہم سب کے لیے اچھی خبر یہی ہے کہ اب ایک، 2 یا 8 میچ پاکستان میں نہیں ہورہے، بلکہ مکمل لیگ پاکستانی میدانوں میں کھیلی جارہی ہے، اور اس بار میدان لاہور یا کراچی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ راولپنڈی اور ملتان بھی شراکت دار ہوں گے۔

اس ٹورنامنٹ میں کُل 34 میچ کھیلے جائیں گے۔ پی ایس ایل کے اب تک کھیلے گئے 4 ایڈیشنز میں اسلام آباد یونائیٹڈ 2 مرتبہ فتح کا تاج اپنے سر پر سجانے میں کامیاب رہی جبکہ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے ایک ایک مرتبہ ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان کے 2 بڑے شہروں کراچی اور لاہور کی ٹیمیں تو ابتدائی 4 ٹورنامنٹس میں فائنل تک رسائی میں بھی ناکام رہی ہیں۔ اگر کراچی اور لاہور کی ٹیمیں پانچویں ایڈیشن کے فائنل میں پہنچنے میں کامیاب رہیں تو شائقینِ کرکٹ کے لیے اس لیگ کی مکمل وطن واپسی کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔

پی ایس ایل نے وطن واپسی کے بعد جہاں مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے، وہیں اس لیگ سے جُڑے کچھ منفی پہلوؤں نے مضطرب بھی کیا ہے۔ آج ہم ایسے ہی چند منفی پہلوؤں کا اس امید کے ساتھ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور لیگ سے منسلک دیگر ادارے اور افراد ان منفی پہلوؤں کا سدِباب کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اور فرنچائز کے تعلقات

پاکستان میں موجود کرکٹ مداح پاکستان سپر لیگ کی تمام فرنچائز کے مالکان، کھلاڑیوں، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور پی ایس ایل کے تمام اسپانسرز کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایسے وقت میں اس لیگ کے آغاز کا فیصلہ کیا جب پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کے امکانات تقریباً معدوم تھے اور ہر طرف یہ خوف تھا کہ اگر یہ لیگ پاکستان نہیں آئی تو اس کا مستقبل کسی بھی طور پر روشن نہیں ہوسکتا۔

لیکن اس لیگ کے شروع ہونے کے بعد پاکستان کو کئی اہم پہلوؤں سے فائدہ ہوا۔ ایک طرف شائقین کو ٹی20 کرکٹ کی ایک معیاری لیگ سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا تو دوسری طرف پاکستانی کھلاڑیوں، کوچز اور کمنٹیٹرز کو غیر ملکی کھلاڑیوں، کمنٹیٹرز اور صحافیوں سے روابط بڑھانے کا موقع ملا اور ان ملاقاتوں اور رابطوں میں اضافے کی بدولت دنیائے کرکٹ میں پاکستان کی ساکھ بہتر کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی بھی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات بہت زیادہ روشن ہیں۔

ان مثبت پہلوؤں کے بیچ پہلا منفی پہلو پاکستان کرکٹ بورڈ اور فرنچائز کے درمیان مختلف معاملات پر عدم اتفاق ہے۔ کبھی یہ عدم اتفاقی ٹورنامنٹ کے میچوں کے شیڈول پر پائی جاتی ہے، کبھی فرنچائز کی جانب سے رقم کی ادائیگی کی تاخیر پر تو کبھی کسی دوسرے معاملے پر۔

پی ایس ایل کے ابتدائی ایڈیشنز میں مکی آرتھر بیک وقت قومی کرکٹ ٹیم اور کراچی کنگز کے کوچ تھے۔ ان کی اس حیثیت پر دیگر فرنچائز نے اعتراض اٹھایا اور بورڈ نے یہ فیصلہ کیا کہ مستقبل میں قومی کرکٹ ٹیم کا کوچ کسی بھی فرنچائز کا کوچ نہیں ہوگا لیکن بدقسمتی سے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروایا جاسکا۔ کیونکہ اب جبکہ مصباح الحق قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں تو ساتھ وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

بورڈ کو چاہیے کہ کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے اس کی پائیداری کا جائزہ لے لیا جائے، تاکہ اس پر عملدرآمد کروانا کسی بھی طور پر مشکل ثابت نہ ہو، کیونکہ کوئی فیصلہ نہ کرنا اتنا بُرا یا نقصاندہ نہیں ہوتا جتنا یہ کہ فیصلہ کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کروایا جاسکے۔

بورڈ اور فرنچائز کے مابین پیدا ہونے والے تناؤ کی ذمہ داری دونوں فریقین پر عائد ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ تناؤ اس خدشے میں مبتلا کردیتا کہ کہیں لیگ کا انعقاد ہی کھٹائی میں پڑجائے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ لیگ کے دن قریب آنے پر معاملات طے ہو ہی جاتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہوگی کہ اس طرح کے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردیے جائیں۔

شائقین کو میدان میں لانے کا انتظام

جب بھی پی ایس ایل میچوں کا انعقاد پاکستان میں ہوتا ہے تو سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، لہٰذا تماشائیوں کو اپنی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں میدان سے دُور مخصوص مقامات پر پارک کرنا پڑتی ہیں اور انہیں ایک خاص شٹل سروس کے ذریعے اسٹیڈیم تک پہنچایا جاتا ہے۔

گزشتہ سال جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کراچی کے نیشنل اسٹڈیم میں پی ایس ایل میچ دیکھنے گیا تو اس وقت میں یہ دیکھ کر ششد رہ گیا کہ شٹل کا سفر کراچی ایکسپو سینٹر کے گیٹ نمبر 2 سے شروع ہوکر گیٹ نمبر 1 پر ختم ہوگیا اور ہم کو اسٹڈیم تک پہنچنے کے لیے ایک طویل فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا۔

ایک اور اہم پہلو یہ کہ شائقین کو میدان تک لانے کے لیے دستیاب شٹلز کی تعداد بھی کم تھی اور کرکٹ مداحوں کو ایک شٹل کے جانے بعد دوسری شٹل کے آنے کا کافی دیر تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ امید ہے کہ اس بار مقامی اور لیگ انتظامیہ اس حوالے سے کارکردگی کو بہتر کریں گی۔

میدان کے اندر سہولتوں کا فقدان

پاکستان میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب میچ دیکھنے کے لیے میدان میں جانا کسی تفریح سے کم نہیں ہوتا تھا، لوگ گھر سے مختلف پکوان پکوا کر لاتے تھے۔ قیمہ اور پراٹھا ایسے موقعوں کے لیے ایک بہترین آپشن ہوتا تھا۔ لیکن آج سیکیورٹی کے سخت انتظامات کے باعث بدقسمتی سے شائقین کو بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے صرف انہی اشیا پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جو میدان کے اندر دستیاب ہوں۔ اس سلسلے میں بھی منتظمین کا کردار بہت اہم ہے۔

یہ منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھانے کے اسٹال لگانے والوں پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر اسٹال پر معیاری اشیا مناسب قیمت پر دستیاب ہوں۔

گزشتہ سال میں نے نیشنل اسٹیڈیم میں دیکھا کہ پانی کو اسٹیل کے ایک بڑے فلٹر میں بھر کر رکھا گیا تھا۔ کراچی کے لوگ نلکے کا پانی استعمال نہیں کرتے اس لیے مفت میں فراہم کیے جانے والے اس پانی کو چھوڑ کر لوگ قابلِ اعتماد برانڈز کا پانی خرید کر پینے کو ترجیح دے رہے تھے۔

میری کرکٹ بورڈ سے گزارش ہے کہ پی ایس ایل کے پانچیں ایڈیشن کے دوران میچ دیکھنے کے لیے آنے والے شائقین کو میدان کے اندر بہترین سہولیات فراہم کرکے ان کے میدان میں آنے کے تجربے کو خوشگوار اور یادگار بنایا جائے۔

براہِ راست نشریات کے دوران اشتہارات کی بھرمار

میدان میں جانے والوں کے مسائل سے نکل کر اب ان شائقینِ کرکٹ کی طرف آتے ہیں جو ٹی وی کے ذریعے ان کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور یاد رکھنے کی بات یہ کہ اکثریت انہی شائقین کی ہے۔

ان میچوں کی براہِ راست نشریات کے دوران ٹیلی ویژن چینلز پر اشتہارات کی بہتات ناظرین کے لیے شدید الجھن کا باعث بنتی ہے۔ جب کوئی کھلاڑی آؤٹ ہوتا ہے تو ناظرین آؤٹ ہونے والے اور آؤٹ کرنے والے کھلاڑی دونوں کا ردِعمل دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس موقع پر اتنی تیزی سے اشتہار آجاتا ہے کہ سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔

کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے جب اشتہار دکھانے کی جلدی میں چینل میچ کی آخری گیند پر ہی اشتہار دکھانا شروع کردیتا ہے، اور کبھی ان اشتہارات کا سلسلہ اتنا طویل ہوجاتا ہے کہ ناظرین اوور کی پہلی گیند دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

جس نشریاتی ادارے اور ٹیلی ویژن چینل نے میچوں کو براہِ راست دکھانے کے حقوق حاصل کیے ہیں، یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری پر منافع کمائیں لیکن میری ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ پیسے کمانے کی اس دوڑ دھوپ میں ناظرین کا بھی خیال رکھیں اور کچھ اس انداز سے اشتہارات دکھائیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔

ماضی کے کمنٹیٹرز اور اردو کی گمشدگی

اگر پی ایس ایل کے چاروں سیزن کا ذکر کریں تو اس بات کو ماننے میں شاید کوئی بھی انکاری نہ ہو کہ اس پوری لیگ میں کمنٹری کا معیار شاندار رہا ہے، اور دورِ حاضر کے ممتاز عالمی کمنٹیٹرز نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اگر دورِ حاضر کے ان کمنٹیٹرز کے ساتھ ماضی کے نمایاں کمنٹیٹرز کو بھی شامل کرلیا جائے تو میچ پر ہونے والے تبصروں کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔ ماضی کے جس کمٹریٹر کو میں پی ایس ایل کے کمنٹری باکس میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ چشتی مجاہد صاحب ہیں۔ چشتی مجاہد جس طرح کمنٹری کے دوران بڑے اطیمنان سے لفظ کو لفظ سے جوڑتے ہیں اسے سن کر سامعین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید وہ ایک مبصر کو نہیں بلکہ کسی شاعر کو سن رہے ہیں۔

لیکن چونکہ پی ایس ایل ایک دیسی لیگ ہے اس لیے اس میں ایک کمی شروع سے ہے جسے دُور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور وہ کمی ہے اردو کمنٹری کی۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں رہنے والوں کی اکثریت انگریزی زبان سے نابلد ہے۔ اس صورتحال میں اگر ٹیلی ویژن پر براہِ راست میچ نشر کرنے کے دوران انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں رواں تبصروں کا اہتمام بھی کیا جائے تو ناظرین کی ایک بڑی تعداد میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ میچ پر ہونے والے رواں تبصرے سے بھی محظوظ ہوسکے گی۔

پھر یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر کی لیگز میں مقامی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے، پھر چاہے بات ہو پڑوسی ملک بھارت کی یا افریقہ میں کھیلی جانے والی لیگز کی، ہر جگہ 2 الگ انتظامات کیے جاتے ہیں۔

شائقین کرکٹ کی ذمہ داری

بس اب ایک ہفتے بعد پاکستان سپر لیگ کے میچوں کی بدولت جہاں میدان میں شائقینِ کرکٹ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھ پائیں گے، وہیں ان کے لیے کچھ زمہ داریوں کو بھی بڑھائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ خوشی کا موقع ہوگا لیکن اس پُرمسرت موقعے پر شائقین کو نظم و ضبط کا دامن نہیں چھوڑنا، انہیں کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی حرکت اور توڑ پھوڑ سے خود کو باز رکھنا ہوگا۔

یہ میدان کسی ایک کی جائیداد نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہیں لہٰذا ہمیں ان کا ایسے ہی خیال کرنا چاہیے جیسے اپنی چیزوں کا کرتے ہیں کیونکہ یہاں کی جانے والی توڑ پھوڑ کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارے نقصان کا ہی سبب بنے گی۔

شائقین کو اس بات کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ میدان کے اندر یا میدان کے اطراف میں کسی بھی نوعیت کی بد تہذیبی اور غیر اخلاقی حرکت ان کے ساتھ ساتھ ان کے شہر اور ملک کا نام بدنام کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

میری دلی دعا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اس لیگ کا خوش اسلوبی کے ساتھ انعقاد کرے اور پاکستان سپر لیگ کا پانچواں ایڈیشن بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مثبت تشخص اُجاگر کرنے کی اپنی روایت کو بر قرار رکھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Raja kamran Feb 13, 2020 10:32pm
بہت مصنف نے لیگ کی تعریف بھی کی اور برائیاں بھی سب بتا دیں اسی سرد گرم کے ساتھ کھیل جاری رکھا جائے خرم ہمیشہ اچھی تحریر لاتے ہیں
riz Feb 14, 2020 08:05am
bohat acha likha hai. khas tur par shayqeen k behaviour par tawajah dilaee hai. TV matches main ads ny tu match ka maza itna bura kar diya hai k match dekhny ka dil hi nahi krta.. khas tur par woh 3D ads aur screen ko chota kar k sides and bottom main again adds.