پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پانچواں سیزن 23 میچوں کے بعد انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز اختتامی مراحل کی جانب گامزن ہے۔ اگر اس لیگ کے ابتدائی 4 سیزن کی بات کریں تو 3 فائنل کھیلنے والی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور 2 فائنل میں حصہ لینے والی اسلام آباد یونائیٹڈ مشکلات کا شکار ہیں اور شاید یہ دونوں ٹیمیں پہلی مرتبہ پلے آف مرحلے تک رسائی بھی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

دوسری طرف 2018ء میں پی ایس ایل کا حصہ بننے والی ملتان سلطانز اس بار پلے آف مرحلے میں داخل ہونے والی پہلی ٹیم بن چکی ہے۔ پی ایس ایل کی 5 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، اسلام آباد یونائیٹڈ، پشاور زلمی اور کراچی کنگز کے علاوہ کسی اور ٹیم نے اس ٹورنامنٹ کے پلے آف مرحلے تک رسائی حاصل کی ہے۔

ملتان سلطانز نے اس بار دلیرانہ کرکٹ کھیلی ہے۔ اس کی بڑی مثال ملتان میں کھیلا جانے والا وہ میچ ہے جب ملتان کے کپتان شان مسعود نے کراچی کنگز کے خلاف ٹاس جیت کر غیر روایتی طور پر پہلے بیٹنگ کرنے کا ایک دلیرانہ فیصلہ کیا اور ٹیم کی شاندار کارکردگی کے سبب وہ فیصلہ درست بھی ثابت ہوا۔ ورنہ ٹیمیں اس بار اتنی خوفزدہ ہیں کہ ٹاس جیتنے کے بعد پہلے باؤلنگ کرنے کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں رہی ہیں۔ پھر ملتان اس اعتبار سے بھی خوش نصیب رہا کہ لاہور اور کراچی کے خلاف اس وقت بارش مدد کے لیے پہنچی جب ان کی بیٹنگ لڑکھڑا رہی تھی۔

لیکن اسلام آباد کی قسمت اس بار اتنی اچھی نہیں رہی۔ ان کے میچوں کو جہاں ایک طرف بارش نے متاثر کیا تو دوسری طرف ان کے کپتان ٹاس کے معاملے میں بھی بدقسمت ثابت ہو رہے ہیں۔

اگر خاص طور پر اس سیزن کی بات کریں کہ یہ باؤلرز کے لیے کافی مشکل ثابت ہورہا ہے اور ہدف کا دفاع کرنا ایک مشکل ترین کام بن چکا ہے۔ اب تک کھیلے گئے 23 میچوں میں 16میچ ان ٹیموں نے جیتے جو ہدف کا تعاقب کررہی تھیں۔ اس صورتحال میں ٹاس جیتنا کسی بھی کپتان کے لیے بہت اہم تھا مگر شاداب خان اس معاملے میں مسلسل بدقسمت ثابت ہوئے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ نے اب تک جو 9 میچ کھیلے ہیں، ان میں شاداب خان صرف 2 مرتبہ ہی ٹاس جیت سکے۔ اتوار کو ملتان کے خلاف کھیلے جانے والے اہم ترین میچ میں بھی شاداب ٹاس نہیں جیت سکے۔ ویسے تو خیال تھا کہ شاید یہ میچ منعقد ہی نہ ہوسکے مگر خوش قسمتی سے میچ ہوا، ہاں مگر ان کو 9 اوورز تک محدود کردیا گیا۔

اس اہم میچ میں ملتان سلطانز کے کپتان شان مسعود نے ٹاس جیت کر اسلام آباد یونائیٹڈ کو بیٹگ کی دعوت دی۔ ابتدا میں تو یہ فیصلہ غلط لگ رہا تھا جب کولن منرو اور لیوک رونکی نے برق رفتاری سے اننگ کا آغاز کیا۔ اننگ کے تیسرے اوور میں جنید خان نے لیوک رونکی کی وکٹ حاصل کی مگر کولن منرو نے پھر بھی احتیاط کرنے کے بجائے چوتھا اوور کرنے کے لیے آنے والے شاہد آفریدی کے اوور میں تیز رفتاری کو جاری رکھا اور ابتدائی 3 گیندوں پر لگاتار 3 چوکے لگاکر پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ آج بھی فارم میں ہیں۔

محض 4 اوور کے بعد یونائیٹڈ کا اسکور 52 تک پہنچ چکا تھا اور لگ رہا تھا کہ شاید بات 125 تک پہنچ جائے، مگر عمران طاہر کے تجربے نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ عمران طاہر نے اپنے اوور کی دوسری ہی بال پر کولن منرو سے چوکا کھایا لیکن پھر اگلی ہی گیند پر انہوں نے منرو کو پویلین کی راہ دکھا کر بدلہ بھی لے لیا۔

منرو کی وکٹ جس وقت گری اس وقت تک اسلام آباد نے ابتدائی 27 گیندوں پر 57 رنز بنالیے تھے۔ لیکن پچھلے کچھ میچوں کی طرح یونائیٹڈ والے اس بار بھی اننگ کے آخری حصے میں لڑکھڑا گئے اور آخری 27 گیندوں پر صرف 34 رنز ہی بناسکے، اور شاید یہی خرابی اسلام آباد کی شکست کی بڑی وجہ بنی۔

92 رنز کے تعاقب میں سلطانز نے جارحانہ آغاز لیا اور اوپنر جیمز ونس نے اننگ کے دوسرے ہی اوور میں عاکف جاوید کو 5 گیندوں پر 5 چوکے مار کر میچ کو ایک ایسے رخ کی جانب موڑ دیا جہاں سے ملتان سلطانز کی جیت یقینی تھی اور ہوا بھی بالکل ایسا ہی۔

ملتان سلطانز نے جیمز ونس کے جارحانہ 24 گیندوں پر بنائے گئے 61 رنز کی بدولت صرف 6.4 اوورز میں اپنا ہدف حاصل کرکے پاکستان سپر لیگ کے پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ دوسری طرف اس شکست کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے ٹورنامنٹ کے پلے آف مرحلے تک رسائی تقریباً ناممکن ہوچکی ہے۔

لاہور بمقابلہ کراچی

اتوار کے روز روایتی حریفوں کراچی کنگز اور میزبان لاہور قلندرز کے درمیان اہم میچ کھیلا گیا۔ اس میچ میں لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر نے ٹاس جیت کر کراچی کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ اس میچ کے دلچسپ اور سنسنی خیز لمحات کا جائزہ پیش خدمت ہے

کیچ چھوڑنا ناقابلِ معافی جرم ہے

کرکٹ کے کھیل میں catches win the matches کی کہاوت بہت مشہور ہے، اور یہ کہاوت اس میچ میں بالکل درست ثابت ہوئی۔ اس میچ میں دونوں ٹیموں کو کیچ چھوڑنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پہلی اننگ میں چوتھے ہی اوور میں سمیت پٹیل کی گیند پر محمد حفیظ نے الیکس ہیلز کا کیچ اس وقت چھوڑ دیا جب ہیلز کا اسکور صرف 4 رنز تھا۔ اس موقع کا ہیلز نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور صرف 48 گیندوں پر 80 رنز کی جارحانہ اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کو مقررہ 20 اوورز میں 187 رنز تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ایسا لگتا تھا کہ یہ اسکور میچ جیتنے کے لیے کافی ہوگا اور کراچی کنگز کے باؤلرز نے اچھا آغاز بھی فراہم کیا مگر پھر گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، یعنی محمد رضوان جو مِڈ وکٹ کی باؤنڈری پر متبادل فیلڈر کی حیثیت سے فیلڈنگ کر رہے تھے، انہوں نے 12ویں اوور میں بین ڈنک کا کیچ اس وقت چھوڑ دیا جب وہ صرف 11 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے۔

بس پھر کیا تھا، بین ڈنک نے رضوان کی اس مہربانی کا جواب چھکوں کی برسات کرکے دیا۔ ان کا بلّا بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرنے والے دونوں اسپنرز کے خلاف تو جیسے آگ اگل رہا تھا۔ بات یہاں نہیں رکی بلکہ بین ڈنک کو اس اننگ میں دوسری زندگی اس وقت ملی جب کپتان عماد وسیم 16ویں اوور میں اپنی ہی گیند پر کیچ پکڑنے میں ناکام رہے۔ ڈنک نے ان مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور صرف 40 گیندوں پر 12 بلند و بالا چھکوں پر مشتمل 99 رنز بناکر اپنی ٹیم کو ایک اہم ترین فتح دلوادی۔

اس فتح کے بعد اب لاہور قلندرز کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا بھرپور موقع موجود ہے۔ قلندرز اگر اپنے اگلے 3 میچوں میں سے 2 میں بھی کامیاب ہوگئی تو پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ کے پلے آف مرحلے میں پہنچنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے، لیکن اگر یہ اپنے تینوں میچ جیت گئی تو پھر امکانات ختم اور پہنچ یقینی ہوجائے گی۔

غیر سود مند ثابت ہوتے محمد حفیظ

لاہور قلندرز کے سب سے تجربہ کار کھلاڑی محمد حفیظ مسلسل غیر سود مند ثابت ہورہے ہیں۔ جب وہ اس میچ میں بیٹنگ کے لیے آئے تو ٹیم کو تیز رنز کرنے کی ضرورت تھی، مگر حفیظ 24 گیندوں پر صرف 16 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ ان کا آؤٹ ہونا قلندروں کے لیے یوں بھی اچھا رہا کہ اگر وہ کچھ اوورز اور وکٹ پر موجود رہتے تو شاید بین ڈنک کی جادوئی اننگز بھی انہیں میچ نہ جتوا سکتی۔

حفیظ کو اب جاگنا ہوگا اور تسلسل کے ساتھ اپنی ٹیم کے لیے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں کارکردگی پیش کرنی ہوگی۔ لاہور قلندرز نے اس میچ میں نوجوان لیگ اسپنر معاذ خان کو موقع دیا، جنہوں نے اپنے پہلے اوور میں 17 رنز دینے کے بعد بہترین انداز میں واپسی کی اور اپنے باقی 3 اوورز میں صرف 14 رنز دے کر بابر اعظم اور کیمرون ڈیلپورٹ کی قیمتی وکٹیں حاصل کیں۔ یہ کارکردگی معاذ خان کے تابناک مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہے۔

محمد عامر ایک بار پھر متاثر کن ثابت ہوئے

کراچی کنگز کی باؤلنگ میں محمد عامر ایک مرتبہ پھر سب سے نمایاں رہے۔ عامر جب بھی باؤلنگ کرنے آتے ہیں ایسا لگتا کہ وہ وکٹ حاصل کریں گے۔ عامر نے اپنے 4 اوورز مین صرف ایک وکٹ حاصل کی لیکن قسمت اگر ان کا ساتھ دیتی تو شاید وہ کئی زیادہ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔ بین ڈنک اپنے پورے جوبن پر ہونے کے باوجود عامر کو سنبھل کر کھیل رہے تھے اور یہ امر عامر کی شاندار کامیابی کی دلیل ہے۔

قذافی اسٹیڈیم کا شاندار ماحول

لاہور میں تماشائیوں کا جوش و خروش اتوار کی شام اپنے عروج پر تھا۔ یہ شاید اس سیزن کا پہلا میچ تھا جس میں قذافی اسٹڈیم ہاؤس فل تھا۔ اس پورے میچ میں اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں نے لاہور کی کھل کر حمایت کی اور اچھی بات یہ کہ یہ حمایت ان کی ٹیم کے کام بھی آگئی۔ اس سے پہلے ملتان میں ہونے والے مقابلوں میں بھی مقامی تماشائیوں نے اپنی ٹیم ملتان سلطانز کو کھل کر داد دی تھی اور ان کو سپورٹ کیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں لیگ راؤنڈ کے اختتامی مقابلے کراچی میں ہوں گے۔ امید ہے کہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بھی ہم عوام کا جم غفیر دیکھیں گے۔

پاکستان سپر لیگ میں 12 دن کے مسلسل کھیلے جانے والے میچوں کے بعد ایک دن کا آرام ہے، اور اب جو بھی میچ باقی ہیں، وہ ٹیموں کے لیے مارو یا مرجاؤ والی صورتحال لیے ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے میچ بارش سے محفوظ رہیں گے اور شائقین کو اگلے چند دونوں میں مزید دلچسپ اور سنسنی خیز میچ دیکھنے کا موقع ملے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Mar 11, 2020 06:12pm
Best PSL ever. Very well done everyone involved