ریکوڈک کیس میں پاکستان حکم امتناع برقرار رکھے جانے کا خواہاں

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2020
اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق حکومت 5 ارب 90 کروڑ ڈالر جرمانے پر حکم امتناع حاصل کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہی ہے — فائل فوٹو: عبدالرازق
اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق حکومت 5 ارب 90 کروڑ ڈالر جرمانے پر حکم امتناع حاصل کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہی ہے — فائل فوٹو: عبدالرازق

پاکستانی حکومت ایسے مواقع تلاش کر رہی ہے جس کے تحت 5 ارب 90 کروڑ ڈالر کے جرمانے پر عملد درآمد پر حکم امتناع حاصل کیا جاسکے جسے عالمی ادارہ تصفیہ برائے سرمایہ کاری تنازع (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے بلوچستان میں ریکو ڈک کان کنی معاہدے کو منسوخ کرنے پر عائد کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان اٹارنی جنرل برائے پاکستان کے دفتر سے کیا گیا۔

اٹارنی جنرل کے دفتر کا کہنا تھا کہ 8 نومبر 2019 کو انہوں نے پاکستان پر تیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو جرمانہ ادا کرنے کے 'آئی سی ایس آئی ڈی' کے 12 جولائی 2019 کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

منسوخی کی درخواست کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اسے عارضی طور پر روکنے کی درخواست بھی دائر کی تھی جسے 18 نومبر 2019 کو منظور کرلیا گیا تھا۔

فی الوقت 'آئی سی ایس آئی ڈی' کی جانب سے عائد جرمانے کو حکم امتناع کا سامنا ہے جس کا مطلب ہے کہ ٹی سی سی کو اس کے نفاذ کے لیے اقدامات کرنے کی اجازت نہیں۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک کیس میں 6 ارب ڈالر جرمانہ، پاکستان نے امریکی عدالت سے رجوع کرلیا

اے جی آفس کا کہنا تھا کہ 'آئی سی ایس آئی ڈی' سیکریٹریٹ اب ٹربیونل کو منسوخی کے عمل کے حوالے سے نوٹیفائی کرتے گا اور اس میں مزید امتناع کا مطالبہ کرے گا۔

حال ہی میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی قیادت میں ایک وفد نے لندن کا دورہ کیا تھا تاکہ سماعت کے دوران پاکستان کے مؤقف کو تیار کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی انتظامیہ نے 11 ارب 43 کروڑ روپے کے نقصانات کا دعویٰ کیا تھا۔

کمپنی کی جانب سے یہ دعویٰ بلوچستان حکومت کی جانب سے کمپنی کے لیے لیزنگ درخواست مسترد ہونے کے بعد 'آئی سی ایس آئی ڈی' میں 2012 میں دائر کیا گیا تھا۔

جس کے بعد پاکستانی حکومت اور عالمی کمپنی کے درمیان یہ کیس 7 سال تک جاری رہا تھا۔

ٹی سی سی نے کیس 12 جنوری 2012 میں دائر کیا تھا جبکہ 'آئی سی ایس آئی ڈی' نے اس کے لیے ٹریبیونل 12 جولائی 2012 کو قائم کیا تھا۔

واضح رہے کہ ریکو ڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں 'ریت کا ٹیلہ' ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔

ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک پر لگنے والے جرمانے کا ذمہ دار کون؟

جولائی 1993میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکو ڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔

بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔

آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبہ کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو مجموعی آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔

تاہم بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی جانب سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا، بعد ازاں صوبائی حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔

علاوہ ازیں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں