ہندوستان: بچوں کی ہلاکت کے بعد اساتذہ کا کھانے دینے سے انکار

شائع July 27, 2013

سترہ جولائی کو پیش آنے والے واقعے کے نتیجے میں اب تک 23 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اے پی فوٹو۔
سترہ جولائی کو پیش آنے والے واقعے کے نتیجے میں اب تک 23 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اے پی فوٹو۔

پٹنہ: ہندوستان میں ہزاروں اساتذہ نے 23 بچوں کی ہلاکت کے واقع کے بعد دوپہر کا کھانا دینے سے انکار کردیا ہے۔

جمعرات کے روز اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ انکے کام کا حصہ نہیں ہے اور ان سے زبردستی کروایا جارہا ہے جبکہ ان پر غیر معیاری کھانا دینے کا بھی الزام لگایا جارہا ہے۔

اس حوالے سے بہار کے اس پروگرام سے متعلق ڈائریکٹر آر لکشمنن کا کہنا تھا کہ اس پیشرفت کی وجہ سے 70 ہزار میں سے 4600 اسکولوں میں کھانا نہیں دیا جاسکا جبکہ دس لاکھ طلبہ اس سے متاثر ہوئے۔

خیال رہے کہ ریاست بہار کے ایک پرائمری اسکول میں دوپہر کا کھانا کھانے سے 23 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔

بعدازاں تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ کھانے کے اندر ایک خطرناک کیڑے مار دوا ملی ہوئی تھی۔ واقعے میں متعدد بچوں کو ہسپتال میں بھی داخل کروایا گیا۔

ادھر جمعرات کو عدالت کے حکم پر اسکول کی پرنسپل مینا دیوی کو جوڈیشل کسٹڈی میں لے لیا گیا ہے تاہم ابھی تک انکے خلاف چارجز درج نہیں کیے گئے۔

ہندوستان اس وقت بچوں کے لیے مفت کھانے کا دنیا میں سب سے بڑا منصوبہ چلا رہا ہے۔

ہندوستان کی 29 اسٹیٹس میں سے متعدد میں اسکول کے دوران بچوں میں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔

بہار ہندوستان کی غریب ترین اسٹیٹس میں سے ایک ہے جبکہ اسکی آبادی پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

مفت کھانا غریب خاندانوں میں بہت مقبول ہے جبکہ ایجوکیٹرز اسے اسکول میں حاضری بڑھانے کے ایک ذریعے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ یہ اسکیم دہائیوں سے ہندوستان میں جاری ہیں۔

تاہم کھانے کے خراب معیار کے باعث بچے پیٹ سے متعلق بیماریوں کا اکثر شکار ہوجاتے ہیں۔

یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں غذائیت کی کمی کا شکار بچوں میں سے ہر تیسرے بچے کا تعلق ہندوستان سے ہے جن میں سے 47 فیصد تین سال سے کم عمر کے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 19 جون 2025
کارٹون : 18 جون 2025