کیا ڈزنی کی فلم میں بھی کورونا وائرس کی پیشگوئی ہوچکی ہے؟

فلم میں ریپنزل کو اس کے جادوئی بالوں کی وجہ سے شہر سے دور رکھا جاتا ہے، فوٹو: یوٹیوب
فلم میں ریپنزل کو اس کے جادوئی بالوں کی وجہ سے شہر سے دور رکھا جاتا ہے، فوٹو: یوٹیوب

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق کئی رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔

ایک دہائی قبل ریلیز ہونے والی ایک فلم کچھ ماہ قبل توجہ کا مرکز بنی جس میں بھی کورونا جیسے مرض کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

جس کے بعد ایسی ہی ایک بیماری کی پیش گوئی کرنے والی کتاب بھی سامنے آگئی تھی۔

مزید پڑھیں: وہ کتاب جس میں 12 سال قبل ’کورونا‘ جیسی وبا کی پیش گوئی کی گئی تھی

اور اب ڈزنی کی مشہور زمانہ فلم ’ٹینگلڈ‘ کو بھی کورونا وائرس سے جوڑا جارہا ہے۔

2010 میں سامنے آئی ڈزنی کی فلم ’ٹینگلڈ‘ ریپنزل کی کہانی پر مبنی تھی جس میں ایک شہزادی کو اس کے جادوئی لمبے بالوں کی وجہ سے ایک عورت اونچی عمارت میں قید کرلیتی ہے اور اسے پوری زندگی یہ کہہ کر ڈراتی رہتی ہے کہ نیچے شہر میں موجود لوگ اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے دعویٰ کیا کہ فلم ’ٹینگلڈ‘ میں ریپنزل کو ایک ٹاور میں سب سے الگ رکھا جاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کورونا مرض کے باعث لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔

لیکن صرف یہی ایک بات نہیں جو اس فلم سے جڑی ہوئی ہو، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ عورت جو ریپنزل کو اغوا کرکے اس ٹاور میں لائی تھی وہ اسے اس کے کنگڈم سے دور رکھنا چاہتی تھی تاکہ کوئی اس تک نہ پہنچ سکے اور جانتے ہیں اس کنگڈم کا نام کیا تھا جس سے ریپنزل کو دور رکھا گیا؟

اس کنگڈم کا نام تھا ’کورونا‘، جی ہاں ریپنزل کو اغوا کرنے والی عورت اسے کورونا نامی کنگڈم سے دور رکھنا چاہتی تھی۔

فلم میں دکھایا گیا کہ ریپنزل کا تعلق کورونا کنگڈم سے تھا، اس کے والد کورونا کے بادشاہ تھے جو کافی سالوں تک ریپنزل کی واپسی کے لیے اس کی سالگرہ کے موقع پر لالٹین جلاتے تھے۔

اینیمیٹڈ ہونے کے باوجود اس فلم کا اصل بجٹ 260 ملین ڈالرز یا موجودہ عہد کے 281.3 ملین ڈالرز کے برابر تھا جبکہ آمدنی 590.7 ملین ڈالرز رہی۔

ریپنزل کی سوتیلی ماں اسے ٹاور میں قید کرلیتی ہے، فوٹو: یوٹیوب
ریپنزل کی سوتیلی ماں اسے ٹاور میں قید کرلیتی ہے، فوٹو: یوٹیوب

خیال رہے کہ لفظ کورونا دراصل مصری زبان سے لیا گیا ہے جس کے معنی سر کا تاج یا ہالہ ہیں۔ اس وائرس کا مشاہدہ صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے ہی کیا جاسکتا ہے جس میں وائرس کی شکل سولر کورونا (سورج کے گرد لاکھوں میل پر مشتمل علاقہ جہاں پلازمہ ہر جانب پھیلا ہوا ہے) کی طرح ہے اس باعث اس وائرس کو کورونا کا نام دیا گیا۔

واضح رہے کہ 12 سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب بھی حال ہی میں سامنے آئی تھی جس میں حیران کن طور پر پیش گوئی کی گئی تھی کہ 2020 میں اچانک دنیا میں ایک وبا پھوٹ پڑے گی۔

مذکورہ کتاب کے حوالے سے سب سے پہلے امریکی ٹی وی ریئلٹی اسٹار کم کارڈیشین نے ٹوئٹ کی جس کے فوری بعد اس کتاب پر سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی اور ’فیکٹ چیک‘ کرنے والی ویب سائٹس مذکورہ کتاب کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے 9 سال پرانی فلم کی مقبولیت میں اضافہ

اس سے قبل 2011 کی ایک فلم 'کونٹیجن' بھی توجہ کا مرکز بنی جس میں کورونا وائرس جیسی ہی ایک بیماری کا ذکر کیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی اس فلم کا آغاز ایک خاتون سے ہوتا ہے جو ہانگ کانگ سے واپس مینیسوٹا ایک عجیب بیماری کے ساتھ واپس لوٹتی ہے، چند دنوں میں اس کی موت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کے شوہر اور دیگر میں وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں وبا پھیل جاتی ہے۔

اس فلم میں بدترین منظرنامے کی دہلا دینے والی جھلک دکھائی گئی ہے کہ کس طرح افواہیں اور تشویش پھیلتی ہے اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، قرنطینے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور خالی ائیرپورٹس کے مناظر ریڑھ کی ہڈی میں سردلہر دوڑا دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں