بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سوئیڈن میں لاپتہ

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2020
اہلخانہ نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کردیا گیا ہو — تصویر: بلوچستان ٹائمز
اہلخانہ نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کردیا گیا ہو — تصویر: بلوچستان ٹائمز

لاہور: صحافی ساجد حسین بلوچ کے دوست اور جاننے والے یہ جان کر حیران رہ گئے وہ سوئیڈن کے شہر اوپسالا سے تقریباً ایک ماہ سے لاپتہ ہیں اور اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ساجد حسین بلوچ ایک آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں جس کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ہفتے کے روز یہ خبر دی کہ ساجد حسین 2 مارچ سے سوئیڈن کے شہر اوپسالا سے لاپتہ ہیں اور اس سلسلے میں سوئیڈن پولیس کے پاس 3 مارچ کو مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

پریس کو جاری کردہ بیان کے مطابق ’آج کے روز (28 مارچ) تک ان کے ٹھکانے یا ان کی خیر و عافیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور نہ ہی پولیس نے تحقیقات میں ہوئی پیشرفت سے ان کے اہلِ خانہ یا دوستوں کو آگاہ کیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے متاثرہ شہر ووہان سے رپورٹنگ کرنے والا صحافی لاپتہ، رپورٹ

ان کے بھائی واجد بلوچ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کردیا گیا ہو لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئے۔

واضح رہے کہ ساجد حسین، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد تقریباً 8 برس قبل ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ان کی اہلیہ شہناز نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر کام کیا تھا لیکن 2012 میں منشیات کے سرغنہ امام بھیل کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ پر انہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔

اہلیہ نے بتایا کہ انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کا پیچھا کیا جارہا ہے، جس کے بعد جب وہ ایک تحقیقاتی کہانی پر کام کررہے تھے تو کوئٹہ میں کچھ لوگ ان کے گھر میں گھس کر ان کا لیپ ٹاپ اور کاغذات لے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: چینی صدر کی کورونا سے نمٹنے پر تقریر کو تنقید کا نشانہ بنانے والے پراپرٹی ایگزیکٹو لاپتہ

اہلیہ نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ ستمبر 2012 میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔

سوئیڈن میں موجود ان کے دوست تاج بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد حسین کے لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کی ملاقات ہوئی تھی اور ہر چیز معمول کے مطابق لگ رہی تھی۔

تاہم اگلے روز ان کا فون بند پایا گیا اور انہوں نے کسی کال کا جواب بھی نہیں دیا، آخری مرتبہ انہیں اس وقت سنا گیا تھا جب وہ ہاسٹل آفس میں موجود تھے اور اپنے کمرے کی چابی مانگی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ کال کرتے ہیں۔

تاج بلوچ نے بتایا کہ جب انہوں نے اوپسالا پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بعض اوقات لوگ تنہائی اختیار کرلیتے ہیں تا کہ کوئی ان کی پرائیویسی متاثر نہ کرسکے تاہم زور دینے پر پولیس نے سوئیڈن کی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) مسنگ پیپل کے ساتھ مقدمہ درج کرلیا اس کے بعد اب تک اس کیس سے متعلق کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

یہ بھی پڑھیں: 'لاپتہ' پولیس افسر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا

دوسری جانب اہلِ خانہ کو ان کی گمشدگی کے پسِ پردہ ملوث عناصر کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن ان کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ سوئیڈن جیسے ملک جو آزادی صحافت کی حمایت کرتا ہے وہاں ایک صحافی کس طرح لاپتہ ہوسکتا ہے۔

اہلِ خانہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اب بھی یقین ہے کہ سویڈش حکام ہمیں انصاف دینے سے انکار نہیں کریں گے اور ہمیں جواب ضرور ملے گا‘۔

خیال رہے کہ ساجد حسین اس سے قبل انگریزی اخبار دی نیوز کے ڈیسک ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔


یہ خبر 30 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں