Dawnnews Television Logo

کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وبا سے متعلق دنیا تاحال مخمصے کا شکار دکھائی دیتی ہے۔
اپ ڈیٹ 16 اپريل 2020 03:33pm

دنیا کے 190 کے قریب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا کورونا وائرس سے 16 اپریل کی صبح تک 20 لاکھ 65 ہزار سے زائد افراد متاثر جب کہ ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے مگر بدقسمتی سے اب تک دنیا کی بہت بڑی آبادی اس وبا کے حوالے سے مخمصے کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

مذکورہ وبا کے شروع ہونے سے لے کر اب تک اس سے متعلق سازشی اور جھوٹی تھیوریز سامنے آتی رہی ہیں جب کہ امریکا اور چین کی حکومتیں بھی اس وبا کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔

جہاں امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وبا قرار دیا، وہیں چین نے بھی امریکا پر الزام لگایا کہ دراصل امریکی فوج ہی ابتدائی طور پر کورونا کو ان کے شہر ووہان لے آئی تھی مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے۔

ماضی میں جہاں کچھ تحقیقات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کورونا کا وائرس چین کے شہر ووہان کی گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا اور اس حوالے سے دو مختلف تحقیقات میں 2 مختلف دعوے کیے گئے تھے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس 2 اقسام کے سانپوں یعنی چینی کوبرا اور کرایت سے شروع ہوا ہوگا اور پھر اسی مارکیٹ کا دورہ کرنے والے انسانوں میں یہ وائرس سانپوں کے ذریعے داخل ہوا ہوگا یا انہوں نے ان کا گوشت کھایا ہوگا۔

ووہان کی گوشت مارکیٹ کو چین کی بڑی مارکیٹوں میں شمار کیا جاتا ہے—فوٹو: اے ایف پی
ووہان کی گوشت مارکیٹ کو چین کی بڑی مارکیٹوں میں شمار کیا جاتا ہے—فوٹو: اے ایف پی

اس کے بعد سامنے آنے والی ایک اور تحقیق میں اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس چمگادڑ سے شروع ہوا ہوگا تاہم دوسری تحقیق کے ماہرین بھی اس بات پر متفق نظر آئے کہ کورونا شروع ووہان کی گوشت مارکیٹ سے ہی ہوا۔

اس حوالے سے مزید تفصیلات یہاں پڑھی جا سکتی ہیں۔

مگر مذکورہ تحقیقات کے باوجود دنیا کے عام لوگ، بعض ماہرین اور سیاستدان بھی اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے، جس وجہ سے اب تک کورونا وائرس کے حوالے سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں۔

اگرچہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کورونا وائرس کو 11 مارچ 2020 کو عالمی وبا قرار دیا گیا، تاہم اس باوجود تاحال اس وبا کے حوالے سے کئی ممالک کے حکمران اور ماہرین مخمصے کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور ایسے حکمرانوں اور ماہرین میں امریکی حکام بھی شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے چینی وائرس قرار دیتے رہے اور اس وبا کے حوالے سے چین کے خلاف ٹوئٹس بھی کرتے رہے۔

امریکا کی جانب سے کورونا کو مسلسل چینی یا ووہان قرار دیے جانے کے بعد چین نے بھی بھی دعویٰ کیا کہ دراصل مذکورہ وائرس کو امریکی فوج ہی چین کے شہر ووہان لائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ

چین نے امریکی سینیٹ کے ایک اجلاس کی کارروائی کی ویڈیو کو بنیاد بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مذکورہ وائرس کو امریکی فوج چین کے شہر ’ووہان‘ لے کر آئی تھی۔

اس سے قبل چینی حکومت امریکا پر کورونا سے متعلق افواہیں اور خوف پھیلانے جیسے الزامات لگاتی آئی تھی۔

امریکا اور چین کی طرح دنیا کے دیگر ممالک کے سیاستدان، مذہبی رہنما، ماہرین اور عام افراد کی رائے بھی کورونا سے متعلق متفرق دکھائی دی، جس وجہ سے بھی کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا حکومتیں کے لیے مشکل بنتا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس ‘قدرت‘ کا رد عمل ہے، پوپ فرانسس

یہی نہیں بلکہ کورونا وائرس کے حوالے سے اور بھی کئی دیگر سازشی نظریات سامنے آئے جس وجہ سے بھی دنیا کی بہت بڑی آبادی پریشانی کا شکار رہی۔

زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ووہان کی گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا—فوٹو: اے ایف پی
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ووہان کی گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا—فوٹو: اے ایف پی

امریکی اخبار واشنٹگن پوسٹ نے تین دن قبل ہی اپنے ایک مضمون میں بتایا کہ کورونا وائرس شروع ہونے سے 2 سال قبل ہی امریکی سائسندانوں اور ماہرین نے ووہان کی مذکورہ گوشت مارکیٹ اور ووہان کے بائیوٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے دوران ماہرین کی جانب سے دیکھی گئی چیزوں کا تفصیلی احوال انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کو بھجوایا تھا۔

امریکی اخبار کے مطابق چین میں امریکی سفارتخانے کے تعاون سے امریکی ماہرین نے ووہان کی گوشت مارکیٹ کے دورے سمیت ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی (ڈبلیو آئی وی) کا دورہ بھی کیا تھا جو کہ بائیوٹیکنالوجی کا ایک اہم ادارہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی ماہرین کی جانب سے دورے کے بعد چین میں موجود امریکی سفارتخانے نے امریکی محکمہ خارجہ کو مراسلے بھیجے تھے جس میں سفارتخانے نے ووہان میں وائرس جیسے امکانات کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور گوشت مارکیٹ سمیت بائیوٹیکنالوجی ادارے میں ہونے والی تحقیقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، تاہم ان مراسلوں میں واضح طور پر نہیں لکھا گیا تھا کہ وہاں پر کسی وائرس کی تیاری کی جا رہی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اگرچہ 2018 میں ہی امریکی ماہرین نے ووہان میں وائرس کے شروع ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا تاہم متعدد امریکی اداروں کے ماہرین نے دسمبر 2019 میں ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا وائرس نہیں کہا۔

واشنگٹن پوسٹ کی طرح برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے بھی مارچ میں اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا تھا کہ نام نہاد ماہرین کے کچھ گروپس ایسے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا، تاہم اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ وائرس چین نہیں بلکہ مغربی دنیا میں تیار ہوا، جسے بعد ازاں چین بھجوایا گیا۔

رائٹرز نے اپنی رپوٹ میں بتایا تھا کہ ایک گروپ کے دعوے کے مطابق معروف فلاحی ادارے بل اینڈ ملنڈا گیٹس نے انگلینڈ کے پربرائٹ انسٹی ٹیوٹ کو ایسے ہی کسی وائرس کے تیار کرنے کے لیے امداد فراہم کی تھی اور پھر انگلینڈ کے ادارے نے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کیا۔

رپورٹ میں ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اگرچہ اس دعوے کو کئی ماہرین، امریکی و برطانوی ادارے افواہ قرار دیتے ہیں، تاہم اس دعوے کے مطابق انگلینڈ کے ادارے نے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی امداد کے تحت نہ صرف کورونا وائرس کو تیار کیا بلکہ اسے رجسٹرڈ بھی کروا لیا تھا۔

ووہان کے گوشت مارکیٹ میں مچھلی اور پرندوں کا گوشت بھی ملتا ہے—فوٹو: رائٹرز
ووہان کے گوشت مارکیٹ میں مچھلی اور پرندوں کا گوشت بھی ملتا ہے—فوٹو: رائٹرز

رپورٹس کے مطابق بعد ازاں اسی وائرس کو دوسرے ممالک کے اداروں کے ساتھ مل کر چینی شہر ووہان منتقل کیا گیا، تاہم اس دعوے پر بھی کسی مستند ادارے کو یقین نہیں اور کئی ماہرین ایسے دعووں کو سازشی تھیوری قرار دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے تحفظ پر پھیلنے والے ابہام اور ان کی حقیقت

ایسے ہی متضاد دعووں کے بعد حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اشارہ دیا کہ امریکی حکومت کورونا وائرس کے لیبارٹری میں ممکنہ تیاری کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے محض 2 دن بعد اب امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا؟۔

سی این این نے رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور نیشنل سیکیورٹی کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی گوشت مارکیٹ سے نہیں پھیلا بلکہ اسے ممکنہ طور پر کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اگرچہ امریکی حکومت کے زیادہ تر عہدیداروں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم پھر بھی اب حکومت اور خفیہ ادارے مل کر اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کی جانب سے کورونا کی ممکنہ طور پر لیبارٹری میں تیاری کی تحقیقات کے معاملے نے اس وقت تقویت پکڑی جب امریکی صدر کے انتہائی قریبی اور ان کی پارٹی کے کچھ ارکان کانگریس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر کورونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس حوالے سے امریکی صدر پر تنقید بے جا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت سے منسلک خفیہ ادارے کے عہدیدار نے بتایا کہ خفیہ ادارے کے ماہرین اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا اور اسے اتفاقی طور پر انسانوں میں منتقل ہونے کے لیے چھوڑا گیا۔

رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسی کے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ خفیہ اداروں کے ماہرین اس تھیوری پر یقین نہیں رکھتے کہ کورونا کو لیبارٹری میں ہی تیار کیا گیا، تاہم خفیہ ایجنسی کے ماہرین یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ کہیں لیبارٹری میں کام کرنے والے کسی شخص سے تو کوئی متاثر نہیں ہوا اور وہیں سے اس وبا کی شروعات ہوئی ہو۔

اسی حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز نے بھی اپنی رپورٹ میں ذرائع سے بتایا کہ امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کے ماہرین کو شک ہے کہ چین نے امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا، تاہم فی الحال اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں۔

فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں امریکا کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی کے حوالے سے بتایا کہ کسی کو اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مذکورہ معاملے کو انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں نہیں پتہ کہ سچائی کیا ہے لیکن ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ بھی کیا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے چینی حکومت دنیا سے شیئر کیے جانے والے ڈیٹا کے حوالے سے بھی بدنیت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ چینی حکومت شفاف انداز میں ڈیٹا کا تبادلہ نہیں کر رہی۔

کورونا پھیلنے کے بعد عارضی طور پر ووہان کی گوشت مارکیٹ کو بھی بند کردیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز
کورونا پھیلنے کے بعد عارضی طور پر ووہان کی گوشت مارکیٹ کو بھی بند کردیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز