نئے نوول کورونا وائرس سے گردوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، تحقیق

17 اپريل 2020
یہ بات تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی —اے ایف پی فائل فوٹو
یہ بات تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی —اے ایف پی فائل فوٹو

نئے نوول کورونا وائرس سے پھیپھڑوں میں ورم اور ہوا کی ننھی گزرگاہیں بند ہوجاتی ہیں جو جسم میں آکسیجن کی فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔

مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 صرف پھیپھڑوں کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ یہ دل کے مسائل، دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

اور اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس سے گردوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

چین میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا کہ کورونا وائرس کے کچھ مریضوں میں گردوں کو نقصان پہنچا اور اس وائرس کے ذرات گردوں میں دریافت کیے گئے۔

جریدے جرنل کڈنی انٹرنیشنل میں شائع اس تحقیق میں سائنسدانوں نے کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کا بعد از مرگ پوسٹمارٹم کیا گیا اور 26 میں سے 9 میں گردوں کو نقصان پہنچنے کا انکاف ہوا۔

دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے یالے اسکول آف میڈیسین کے گردوں کے امراض کے ماہر ایلن کلیگر نے کہا کہ کووڈ 19 کے شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہونے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کے پیشاب میں خون یا پروٹین موجود ہوتا ہے جو گردوں کو پہنچنے والے ابتدائی نقصان کا عندیہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیویارک اور چین کے شہر ووہان میں آئی سی یو میں داخل ہونے والے 14 سے 30 فیصد مریضوں میں گردوں کے افعال ختم ہوگئے اور ڈائیلاسز کی ضرورت پڑی۔

نیویارک کے ہسپتالوں میں آئی سی یو یونٹس میں گردوں کے فیلیئر کا علاج اتنا زیادہ ہورہا ہے کہ وہاں ڈائیلاسز کے لیے امریکا بھر سے رضاکاروں کو فوری طلب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے نتیجے میں اس سیال کی کمی خطرناک حد تک کمی ہوگئی جو رینل تھراپی کو جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا 'اس مسئلے کے شکار افراد کی تعداد اتی زیادہ ہے جو میں پہلے نہیں دیکھی، میرے خیال میں یہ بالکل ممکن ہے کہ یہ وائرس گردوں کے خلیات سے منسلک ہوکر عضو پر حملہ آور ہوتا ہے'۔

مگر طب کی دنیا میں عام طور پر اس طرح کے خیال کو اس وقت تک درست نہیں مانا جاتا جب تک بڑے پیمانے پر تحقیق سے اسے ثابت نہ کیا جائے۔

ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ متعدد ممکنہ وجوہات ایسی ہیں جو عضو اور ٹشو کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، جیسے نظام تنفس کا متاثر ہونا، ادویات کا استعمال، شدید بخار، آئی سی یو میں داخل ہونے کا تنائو اور مدافعتی پروٹین کا بہت زیادہ متحرک ہونا۔

سانسدانوں نے دریافت کیا کہ انفیکشن سے لڑنے کے لیے مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے مرکبات cytokines کا سیلاب آجاتا ہے جن کی مقدار بڑھنے سے متعدد اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے سنگین مریضوں میں اکثر اس مسئلے نتیجے میں لوگوں کو آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے چین، اٹلی اور امریکا میں اس حوالے سے ڈیٹا سامنے آیا تھا جس کو دیکھ کر امراض قلب کے ماہرین کا ماننا ہے کہ کووڈ 19 دل کے پٹھوں کو بھی متاثر کرنے والا مرض ہے۔

ایک ابتدائی تحقیق میں ہر 5 میں سے ایک مریض میں دل کو ہونے والے نقصان کو دریافت کیا گیا، جو ہارٹ فیلیئر اور موت کی جانب لے جاتا ہے، حیران کن طور پر ان میں سے بیشتر میں تنفس کے مسائل ظاہر نہیں ہوئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو مریضوں کے حوالے سے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے خصوصاً بیماری کے ابتدائی مراحل میں۔

نیویارک کے مونٹ فیور ہیلتھ سسٹم کے امراض قلب کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر الرچ جورڈی کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈا جائے کہ یہ وائرس دل کو متاثر کرتا ہے اور کیا ہم کچھ کرسکتے ہیں؟

ابھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا امراض قلب کے مسائل وائرس کا نتیجہ ہے یا جسمانی ردعمل اس کا سبب ہے، مگر دل پر اس کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ بیماری کی شدت میں اضافہ بھی دل کی صحت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فینبرگ اسکول آف میڈیسین کے کارڈیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ بونو نے کہا کہ اگر نمونیے سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ایسا دل کی حرکت رکنے سے ہی ہوتا ہے، جب جسمانی نظام کو مناسب مقدار میں آکسیج نہیں ملے گی تو حالات خراب ہی ہوں گے۔

مگر متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ کووڈ 19 سے دل کو 4 یا 5 انداز سے نققصان پہنچ سکتا ہے، کچھ مریض میں بیک وقت ایسے ایک سے زیادہ طریقوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب رواں ہفتے چین میں ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک ابتدائی تحقیق میں ہر 5 میں سے ایک مریض میں دل کو ہونے والے نقصان کو دریافت کیا گیا، جو ہارٹ فیلیئر اور موت کی جانب لے جاتا ہے، حیران کن طور پر ان میں سے بیشتر میں تنفس کے مسائل ظاہر نہیں ہوئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو مریضوں کے حوالے سے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے خصوصاً بیماری کے ابتدائی مراحل میں۔

نیویارک کے مونٹ فیور ہیلتھ سسٹم کے امراض قلب کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر الرچ جورڈی کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈا جائے کہ یہ وائرس دل کو متاثر کرتا ہے اور کیا ہم کچھ کرسکتے ہیں؟

ابھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا امراض قلب کے مسائل وائرس کا نتیجہ ہے یا جسمانی ردعمل اس کا سبب ہے، مگر دل پر اس کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ بیماری کی شدت میں اضافہ بھی دل کی صحت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فینبرگ اسکول آف میڈیسین کے کارڈیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ بونو نے کہا کہ اگر نمونیے سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ایسا دل کی حرکت رکنے سے ہی ہوتا ہے، جب جسمانی نظام کو مناسب مقدار میں آکسیج نہیں ملے گی تو حالات خراب ہی ہوں گے۔

مگر متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ کووڈ 19 سے دل کو 4 یا 5 انداز سے نققصان پہنچ سکتا ہے، کچھ مریض میں بیک وقت ایسے ایک سے زیادہ طریقوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ کئی بار یہ علامات کووڈ 19 کی روایتی علامات جیسے بخار، کھانسی وغیرہ کے بغیر ہی ظاہر ہوئیں۔

ووہان کے یونین ہاسپٹل کی اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر بو ہو کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں طبی ماہرین کو دماغی علامات کو کورونا وائرس کی ممکنہ نشانیاں سمجھنا چاہیے تاکہ تشخیص میں تاخیر نہ ہوسکے یا غلط تشخیص نہ ہوسکے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیورولوجی میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں