grand mufti kashmir and music 670
ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے مفتی اعظم بشیرالدین احمد۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے مفتیٔ اعظم بشیر الدین احمد آج کل موسیقی سے تعلق رکھنے والے اور اس کو پسند کرنے والے طبقے کی تنقید کی زد میں ہیں۔ اس طبقے کا مطالبہ ہے کہ مفتی بشیر اپنے اس بیان پر معافی مانگیں، جس میں انہوں نے نوجوان لڑکیوں کے راک بینڈ پراگاش کو ختم کرنے کے لیے زور دیا تھا۔

تین نوجوان ٹین ایجر لڑکیوں پر مشتمل اس گروپ نے مفتی بشیر الدین احمد کے فتوے کے ایک دن کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا راک بینڈ ختم کررہی ہیں۔ مفتی بشیر نے اس فتوے میں کہا تھا کہ اسلام میں موسیقی اور گانا بجانا جائز نہیں ہے، لہٰذا انہوں نے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہئیے۔

ان لڑکیوں نے معاشرتی رسم ورواج کے برعکس ہمت کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن جب انہیں آن لائن دھمکیاں دی جانے لگیں اور قدامت پرست معاشرے کی طرف گالیاں تک دی جانے لگیں اور ان لڑکیوں کی زندگی کو ہی خطرات لاحق ہوگئے تو انہوں نے اپنے بینڈ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

مفتی بشیرالدین نے کہا تھا ”میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ موسیقی اور گانا بجانا اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔“

لیکن اب خود مفتی بشیر ایک عوامی محفل موسیقی میں موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، اور ان کی اس محفل میں شرکت اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا ثبوت ایک وڈیو کی صورت میں دنیا بھر میں بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پھیل گیا ہے۔

گلوکاروں اور موسیقاروں کا ایک اعلیٰ سطح کا پلیٹ فارم کشمیر میوزک کلب کے چیئرمین وحید جیلانی کا کہنا ہے کہ ”مفتی صاحب کو سب نے موسیقی سے لطف اندوز ہوتے دیکھ لیا ہے۔ خلافِ اسلام قرار دے کر جس کام سے وہ اُن لڑکیوں کو روک رہے تھے، خود اس کا لطف اُٹھا رہے ہیں،یہ سراسر منافقت ہے۔ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ان لڑکیوں سے معافی مانگیں۔“

یادرہے کہ مفتی بشیر کے فتوے کے بعد سے ہی ان لڑکیوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوئی تھیں۔

grand mufti kashmir and music1 670
مفتی اعظم کشمیر بشیرالدین احمد (سرخ دائرے میں) ڈل جھیل میں ایک بوٹ ہاؤس میں منعقدہ محفل موسیقی میں میوزیکل پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ ڈیلی میل

قیصر نظامی جو معروف گلوکار ہیں، انہوں نے اس محفل میں غزل اور صوفی کلام پیش کیا تھا، جس محفل میں مفتی اعظم بھی شریک تھے۔ قیصر نظامی نے مفتی بشیر سے ان کے فتوے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں اس بات کو رد کردیا اور کہا کہ انہوں نے محض یہ کہا تھا کہ یہ ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں کہ لڑکیاں اس طرح کے کام کریں۔

قیصر نظامی نے کہا ”اگر مفتی یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ موسیقی حرام ہے تو میرے جیسے لوگ جن کا موسیقی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں ہے، وہ تو بھوکے مرجائیں گے۔“

تاہم مفتی بشیر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پراگاش کے خلاف دیا گیا فتویٰ واپس نہیں لیا جائے گا۔

ترجمان نے کہا کہ ”راک بینڈ کے خلاف دیے گئے فتوے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جس کانفرنس میں مفتی صاحب نے شرکت کی تھی، وہ خالصتاً مذہبی نوعیت کی تھی۔ راک بینڈ کی طرز کا کوئی موسیقی کا پروگرام س کانفرنس کے دوران نہیں پیش کیا گیا تھا۔“

دختران ملت نامی ایک شدت پسند اور کٹر پن نظریات کے حامل علیحدگی پسند خواتین کے گروپ کی سربراہ عائشہ اندرابی کا کہنا ہے کہ پراگاش کے خلاف دیا گیا فتوی اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ تاہم مفتی نے اگر ایسی کسی محفل میں شرکت کی ہے، جہاں موسیقی پیش کی گئی تھی تو انہیں اس چیز کی وضاحت کرنی چاہئیے۔ دوسری صورت میں یہ منافقت کہلائے گی۔

مفتی بشیر کا مذکورہ وڈیو جو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل چکا ہے، میں واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ کشمیر کی مشہور ڈل جھیل میں دور درشن کی سابق ڈائریکٹر شہزادی سائمن کے ہاؤس بوٹ پر منعقدہ محفل موسیقی میں میوزیکل پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

یہ محفل موسیقی ریڈیو کشمیر کے زیراہتمام اردو کے معروف شاعر اکبر جئے پوری کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔

kashmir-girl-band 670
تین کشمیری لڑکیوں کا گروپ پراگاش۔ —. فائل فوٹو

ذرائع کے مطابق کشمیری سنگر قیصر نظامی نے مہدی حسن کی گائی ہوئی مشہور غزل ”رنجش ہی سہی“ اور ”رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے“ کے علاوہ ایک پنجابی نمبر چھاپ تلک بھی پیش کیا تھا۔

کانگریس کے رہنما دگ وجئے سنگھ نے بھی مفتی اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی اعظم کی منافقت سامنے آگئی ہے۔

وجئے سنگھ نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ ”تمام مذہبی بنیاد پرست دو رُخی بات کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔“

دوسری جانب سعودی عرب میں جس کا دنیا بھر کے مسلمان اتباع کرتے ہیں، کے ممتاز عالم دین الحمیدی عبیسان نے موسیقی، اختلاط مرد و زن اور خاتون کے چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کے عدم وجوب سے متعلق کہا ہے کہ ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ موسیقی اورمرد وعورت کے مخلوط شکل میں رہنے کو حرام اور خاتون کے چہرے پر نقاب اوڑھنے کو لازمی قرار دیا جاسکے۔

العربیہ نیوز چینل کے فلیگ شپ پروگرام"اضاءت" میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی عالم دین کا کہنا تھا کہ ”ان کے پاس موسیقی کوحرام قرار دینے سے متعلق کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ موسیقی کی ممانعت میں شدت دراصل فحش گوئی کے عنصر کے موسیقی میں ملنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔“

تبصرے (4) بند ہیں

Misbah-ul-Haq Jul 30, 2013 06:01am
اس مولوی کی منافقت سے کیا گانے گانا جائز ہوگیا ہے۔ یہ خبر تو کچھ اسی طرح کا پیغام دے رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔
Bullah Jul 30, 2013 06:54am
سلمان معاشرے ان دنوں Transformation کے ایک دور سے گذر رہے ہیں ۔ عالم ِ اسلام میں ہر طرف روایت اور جدت کی ایک کشمکش ہے ۔ یہ کشمکش کسی قوم کے مستقبل کے لیئے بڑی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس طرف توجہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ : آئینِ نو سے ڈرنا ، طرزِ کوہن پہ اَڑنا منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں کشمکش کے یہ میدان بہت سے ہیں ۔ لیکن اس میں سب سے واضع اور نمایاں میدان فنونِ لطیفہ کا ہے ۔ اور اس میں بھی نمایاں تر موسیقی کی بحث ہے ۔ ایک مسلمان معاشرے میں کیا موسیقی کے لیے گنجائش موجود ہے ۔ ؟ اسلام جس تہذیب کو فروغ دینا چاہتا ہے ۔ کیا اس میں موسیقی کے لیے کوئی جگہ ہے ۔ جو تزکیہ انسان کو مذہب میں مطلوب ہے کیا موسیقی اس میں معاون ہے یا اس کا کردار منفی ہے ۔ ؟ جو چیز انسان کو شرک اور بے حیائی کی طرف مائل کردے یا کوئی ایسی چیز جو انسان کو اس کی بنیادی ذمہ داریوں ، عبادات اور ضروریات سے غافل کردے ۔ ایسی صورت میں جو جائز چیز ہوگی وہ بھی اس وقت ناجائز ہوجائے گی ۔ اور اسکا تعلق صرف موسیقی سے ہی نہیں بلکہ وہ کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص صرف سیر وتفریح ہی کرنے لگے یا کوئی شخص اس طرح شاعری کرنے لگے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہوجائے ۔ تو یہ چیزیں بھی ناجائز بن جائیں گی ۔ اگر بات موسیقی کی ہے تو پوری کائنات میں موسیقیت کے مظاہر ہر جگہ ملیں گے ۔ پانی کے جھرنوں کا گنگنانا ، پرندوں کا مخصوص انداز میں چہچہانا ، ہوا کی سرسراہٹ ۔ سب فطرت کی موسیقی کے ہی مظاہر ہیں ۔ اور قرآن نے جس طریقے سے کہہ دیا ہے ۔ کہ ۔ ” قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللهِ الَّتِی أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنْ الرِّزْقِ قُلْ ہِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ۔ ( سورہ مائدہ ۔ آیت نمبر 90 ) ترجمہ: کہہ دو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہے اور دلپسند اور پاکیز ہ رزق کو اپنے اوپر بغیر کی دلیل کے حرام قرار دیا ہے۔ کہہ دو کہ یہ نعمتیں دنیوی زندگی میں مومنین کے لئے ہیں (اگرچہ کفار بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔)۔
Bullah Jul 30, 2013 06:55am
اس کا مطلب یہ ہوا کہ موسیقی بنیادی طور سے جائز ہے بشرطیکہ اس میں شرک اور بے حیائی نہ ہو ۔ اور وہ انسان کو اس کی اہم زندگی کی ضروریات سے غافل نہ کردے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی کو حرام قرار دینے کے لیئے قرآن مجید میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ اور جب ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو جتنی بھی صحیح احادیث ہیں ۔ وہ موسیقی کی حلت پر یعنی اس کے حلال ہونے کی طرف اشارہ کرتیں ہیں ۔ اور جتنی بھی ضعیف احادیث ہیں وہ اس کو حرام قرار دیتیں ہیں ۔ ایک حدیث کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” مجھے آلاتِ موسیقی کو توڑنے کے لیئے بھیجا گیا ہے ” اور جب اس کی تفصیل میں جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک انتہائی ضعیف حدیث ہے ۔ یعنی اس بات کا تعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتا ۔ اس کو ثابت کرنا ایک بہت بڑی جسارت ہوگی ۔ لہذا ایسی احادیث پر کسی چیز کے حرام ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا ۔ سو سال پہلے علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے ۔ ” اب ایک لکیر پر سفر شروع ہوگیا ہے ۔ اگر اس پر کسی قسم کے خیالات یا نظریات کا اظہار کیا جائے تو وہ فتوؤں کی گرفت میں آجاتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موسیقی کے اکثر آلات مسلمانوں کی ہی ایجاد کردہ ہیں ۔ گٹار اسپین کے مسلمانوں نے ایجاد کیا ۔ طبلہ اور ستار امیر خسرو کی ایجاد ہیں ۔ ۔ مسلمان معاشرے میں جو بھی ترقی ہوئیں وہ پندرھویں یا سولویں صدی سے قبل کی ہیں کہ اس وقت مسلمان سوچ رہا تھا ۔ اور مسلمانوں نے اس قسم کی جو بھی ایجادات کیں وہ محض تفریح کے لیئے نہیں بلکہ ایک تخلیقی کام کو آگے بڑھانے اور زندہ رکھنے کے لیئے تھیں ۔ کیونکہ تفیہمِ نو کا سفر جاری تھا ۔ کسی بھی چیز کو ناجائز قرار دینے کے لیئے ایک مضبوط دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کو آپ محض کمزور احادیث پر حرام قرار نہیں دے سکتے ۔ جب ہم موسیقی کے حوالے سے تمام روایات کو اکٹھا کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بخاری اور مسلم میں جو احادیث ہیں ۔ وہ اس طرف اشارہ کرتیں ہیں کہ بغیر کسی استثناء کے وہ تمام چیزیں جن میں شرک اور بےحیائی نہ ہو تو ان میں کوئی ناجائز ہونے کی بات نہیں ہے ۔ واحد صحیح حدیث جس میں موسیقی کا تذکرہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جن چیزوں کی قیامت کے دن اکثریت ہوجائے گی ۔ ان میں سے ایک چیز موسیقی بھی ہے ۔ ” یہ حدیث بلکل ٹھیک ہے ۔ لیکن اس حدیث میں خبر دی گئی ہے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربِ قیامت میں لوگ ان چیزوں میں اس طرح منہمک ہوجائیں گے کہ وہ نہ صرف اپنی عبادات بلکہ اپنی زندگی کی ذمہ داریوں کو بھی بھلا دیں گے ۔ اب بانسری کی بات ہے تو ایک صحیح روایت میں یہ بات بھی آئی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سائبان کو بانسری بجاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ ” یہ سفر کی کلفت دور کرنے کا کتنا اچھا طریقہ ہے ۔ ” چنانچہ جتنی بھی دو چار حدیثیں جو موسیقی کے خلاف پیش کی جاتیں ہیں ۔ اور محدثین نے ان پر جس طرح کے اعتراضات کیئے ہیں اور بتایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک روایت میں ایسی چیزیں ہیں جو ان کو کمزور بنا دیتیں ہیں اور جن بنیاد پر یہ کہنا کہ موسیقی حرام ہے یہ بات ٹھیک نہیں ہے
Bullah Jul 30, 2013 06:56am
خوش آوازی اور ترنم کے ساتھ جائز کلام سننے کا جواز انبیاء کرام علیہم السلام کے خوش الحان ہونے سے بھی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما بعث اﷲ نبياً الا حسن الصوت. (ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 4 : 6) ’’اﷲ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا انہیں خوش آوازی عطا فرمائی۔‘‘ دیگر محدثین کرام بشمول حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نوادر الاصول فی احادیث الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (3 : 33)‘‘ میں، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (19 : 176)‘‘ میں انبیاء علیہم السلام کے حسن الصوت کی روایت نقل کی ہے۔ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اﷲ رب العزت نے کسی نہ کسی خاص خوبی سے نوازا جو اُن کی خصوصیت قرار پائی۔ ان میں سیدنا داؤد علیہ السلام کو اﷲ رب العزت نے امتیازی خوبی لحن یعنی خوش آوازی عطا فرمائی جو رہتی دنیا تک ’’لحنِ داؤدی‘‘ کے نام سے زباں زدِ خاص و عام ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا : يَا أَبَا مُوسَی! لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ. (1. صحيح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقراء ة بالقرآن، 4 : 1925، رقم : رقم : 4761 2. صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب تحسين الصوت بالقرآن، 1 : 546، رقم : 793) ’’اے ابو موسی! تحقیق تجھے آلِ داؤد علیہ السلام کی خوش اِلحانی میں سے حصہ عطا کیا گیا ہے۔‘‘ سیدنا داؤد علیہ السلام جب آپ اپنی مترنم آواز سے اﷲ کا ذکر کرتے تو پہاڑ آپ کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے کیونکہ وہ داؤد علیہ السلام کی آواز کے زیر و بم کو سمجھتے تھے۔ اِس ضمن میں قرآن حکیم فرماتا ہے : إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِO وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً كُلٌّ لَّهُ أَوَّابٌO وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِO (ص، 38 : 18 - 20) ’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِ فرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھےo اور پرندوں کو بھی جو (اُن کے پاس) جمع رہتے تھے، ہر ایک اُن کی طرف (اِطاعت کے لیے) رجوع کرنے والا تھاo اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھاo‘‘ محمد بن اسحاق کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کی موسیقی بھری ترنم آفریں آواز جو وہ ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں بلند کرتے تو اس کو سن کر پہاڑ بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر لقمہ ریز ہو جاتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایسی آواز سے نواز رکھا تھا جو دیگر تمام آوازوں پر برتری اور فوقیت رکھتی تھی۔ جب وہ اپنے شیریں ترنم سے زبور کی تلاوت کرتے تو جنگلی جانور ان کے اس قدر قریب آجاتے کہ وہ انہیں گردن سے پکڑ سکتے۔ (1. الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، : 2105. التفسير الکبير للرازی، 26 : 186) حضرت داؤد علیہ السلام کی شیریں اور دل کو موہ لینے والی آواز عطیہ خداوندی تھا، جس سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدح سرائی میں اچھی آواز کا استعمال اَجر و ثواب اور انعام کا باعث ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اسی خوش الحانی کے ساتھ اہل محشر کے سامنے میری تقدیس بیان کرو، جیسے دنیا میں تم تورات کی تلاوت کرتے تھے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ پر مسرت مواقع پر مترنم آوازوں کی مہارت اور ہنر کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ اس بات کی تائید احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہوتی ہے۔ روایت اس طرح ہے کہ ربیع بنت معاوض بن عرفہ بیان کرتی ہیں : ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شادی کے موقع پر تشریف لائے اور دوسرے اَعزاء و اَقارب کی طرح میرے بستر پر فروکش ہوگئے۔ اتنے میں ہماری انصار بہنیں دف پر کوئی گیت گانے لگیں، وہ شہدائے بدر کی تعریف میں نغمہ سرا تھیں۔ جب ہم میں سے ایک لڑکی کی نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو وہ آپ کے لیے مدح سرا ہوگئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روکا اور فرمایا کہ وہ وہی گیت جاری رکھیں جو وہ گارہی تھیں۔‘‘ (صحيح بخاری، کتاب المغازی، باب شهود الملائکة بدرا، 4 : 1469، رقم : 3779) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ. (1. جامع الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح، 3 : 398، رقم : 1089 2. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 290، رقم : 14476 3. الفردوس بماثور الخطاب للديلمی، 1 : 101، رقم : 335) ’’نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور ان مواقع پر دَف بجایا کرو۔‘‘