لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں ڈینسو روڈ پر موجود گلابی رنگ میں رنگی 2 منزلہ عمارت گزشتہ 43 سال سے علاقے کی پہچان بنی ہوئی ہے۔

زنگ آلود دروازوں پر لگے تالے کی وجہ سے یہ عمارت ویران سی نظر آتی ہے لیکن ایسا صرف کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہے کیونکہ عام دنوں میں فٹبال ہاؤس کی تاریخی عمارت بہت سی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہتی ہے۔

مرکزی دروازے کے اوپر پہلی منزل کی بالکونی کی دیواروں پر ایک بڑا اور ماندہ سا سائن بورڈ لٹکتا نظر آتا ہے جس پر ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن ساؤتھ (ڈی ایف اے) تحریر ہے۔

سائن بورڈ پر ڈی ایف اے کے لوگو کے ساتھ 16 نوجوانوں کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ ڈی ایف اے ساؤتھ کے سابق چیئرمین اور پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کی ایگزیکٹیو باڈی کے سابق رکن ناصر کریم بلوچ کہتے ہیں کہ ’یہ تصویریں ان 16 ٹیموں کے کپتانوں کی ہے جو ہماری گزشتہ سپر لیگ کے آخری مراحل تک پہنچی تھیں۔

پی ایف ایف کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد فٹبال ہاؤس کے معاملات بھی اب فیفا کی تجویز پر تشکیل دی جانے والی پی ایف ایف کی نارملائزیشن کمیٹی سنبھالتی ہے۔

لیاری فٹبال ہاؤس، لاہور میں واقع نیشنل فٹبال ہیڈکوارٹرز فیفا ہاؤس سے بھی پہلے وجود میں آیا تھا۔ اس عمارت کا سنگِ بنیاد 1976ء میں فیڈریشن کے اس وقت کے صدر ستار گبول کے دور میں رکھا گیا۔

ناصر کریم کہتے ہیں کہ 'ستار گبول صرف پی ایف ایف کے صدر ہی نہیں تھے بلکہ وفاقی وزیر برائے افرادی قوت اور پیپلزپارٹی کے رہنما بھی تھے۔ جب عمارت کھڑی ہوگئی تب وہ ہفتے کے 3 دن یہاں بیٹھ کر اپنا کام کرنا پسند کرتے تھے۔ اس سے پہلے پی ایف ایف کے تمام امور ایک بریف کیس کے ذریعے ہی ہوا کرتے تھے، یعنی پی ایف ایف کا کوئی دوسرا دفتر نہیں تھا، اور جو کوئی بھی اس قومی تنظیم کی سربراہی کرتا وہ اس بریف کیس کا ہی استعمال کرتا'۔

بظاہر سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق جب پی ایف ایف کے صدر تھے تب وہ بھی اسی طرز پر پشاور سے کام کرتے رہے اور ستار گبول سے پہلے آنے والوں نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ لیاری چونکہ متعدد عمدہ فٹبال کھلاڑی پیدا کرچکا ہے اس لیے یہ فٹبال ہاؤس کا مستحق ہے۔ چنانچہ 2003ء میں فیفا ہاؤس لاہور کا تعمیراتی کام مکمل ہونے تک اسی فٹبال ہاؤس کو پی ایف ایف ہیڈ کوارٹرز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

ناصر کریم کہتے ہیں کہ، 'بے مثال فٹبال کھلاڑیوں سے ملنے ملانے کے لیے یہ ایک بہت ہی زبردست جگہ ہوا کرتی تھی اور ستار گبول ان میں گھرے رہ کر بہت ہی فرحت محسوس کرتے تھے۔ ان بیٹھکوں میں یوسف سینئر، عباس بلوچ، مولا بخش مومن اور کپتان محمد عمر بلوچ جیسے عظیم فٹبال کھلاڑی شرکت فرما ہوتے تھے۔

’میں ان دنوں نوجوان کھلاڑی تھا اور وہاں بیٹھنے اور ان لیجنڈ شخصیات کی کہانیاں اور ان کے تجربات سننے میں بڑا ہی لطف آیا کرتا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے فٹبال کا یہاں کافی بول بالا تھا۔ مذکورہ اور دیگر فٹبالر پیشہ ورانہ کھلاڑی تھے جنہیں 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں بڑے بڑے بین الاقوامی کلب سائن کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ان کھلاڑیوں کا بڑا نام تھا اور ان کی باتیں سننے یا ان کے درمیان رہنے سے ہماری بھی حوصلہ افزائی ہوا کرتی تھی۔'

ناصر کریم بلوچ
ناصر کریم بلوچ

ناصر کریم بتاتے ہیں کہ 'کراچی کا یہ حصہ یعنی لیاری بندرگاہی علاقے کے ساتھ واقع ہے اور پہلی عالمی جنگ کے بعد سے بحری جہازوں کی لنگر اندازی کے ساتھ یہ ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ اور ان بحری جہازوں کے ساتھ ایسے جہاز ران بھی آئے جو شہر میں فارغ اوقات میں فٹبال کھیلا کرتے تھے۔ وہ اکثر وائی ایم سی اے اور سندھ مدرستہ الاسلام کے میدانوں میں فٹبال کھیلا کرتے تھے۔ بعدازاں 1960ء کی دہائی میں جب تاریخی 'کے ایم سی گراؤنڈ' وجود میں آیا تو یہ فٹبال کے کھیل کا مرکز بن گیا'۔

وہ کہتے ہیں کہ 'کراچی میں فٹبال کی بھرپور سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے شہر کو 'کے ایم سی' فٹبال گراؤنڈ کا تحفہ دیا بعدازاں اس میدان میں بڑے عالمی میچوں کے انعقاد کا سلسلہ بھی شروع ہوا جہاں میچ دیکھنے کے لیے لوگوں کو ٹکٹ خریدنا ہوتا تھا'۔

انہوں نے بتایا کہ، 'فٹبال کا وہ سنہرا دور اور کھیل کی کشش کب کی ماند پڑچکی ہے۔ مگر 1976ء کے بعد فٹبال کھلاڑیوں کی ساری دستاویزی کارروائی اسی فٹبال ہاؤس کے ذمے تھی۔ 2003ء میں فٹبال ہیڈکوارٹرزکی لاہور منتقلی سے پہلے کھلاڑیوں کی ریجسٹریشن، خطوط، کارڈ بنانے جیسے سارے کام اسی عمارت میں ہوا کرتے تھے۔ آگے چل کر فٹبال ہاؤس سندھ فٹبال ہیڈکوارٹرز بن گیا۔ اس وقت 20 سے 25 کھلاڑیوں پر مشتمل قریب 153 ٹیمیں ہیں اور ہم نے ان سب کی رجسٹریشن یہاں پر کی ہوئی ہے'۔

فٹبال ہاؤس کا تعمیراتی کام 1996ء میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران سابق رکنِ قومی اسمبلی واجا احمد کریم داد کی زیرِ نگرانی مکمل ہوا۔

عمارت میں دفتری کام کے لیے 4 دفاتر مختص ہیں جنہیں اب سندھ فٹبال اور ضلعی ایسوسی ایشن کے امور سنبھالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے آنے والے کھلاڑی اور کوچ ہوٹلوں میں قیام کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا ان کے ٹھہرنے کے لیے اس عمارت میں 16 کمرے بھی موجود ہیں۔ ناصر کریم 1987ء میں ریجنل فٹبال الیکشن میں کامیابی پانے کے بعد ڈی ایف اے ساؤتھ کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

اور پھر 1990ء میں منعقد ہونے والے اگلے الیکشن میں بھی کامیاب ہوئے اور چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ وہ کہتے ہیں اس عمارت میں ایک کانفرنس ہال بھی ہے جہاں کوچ کھلاڑیوں کے لیے تھیوری ورکشاپ کا اہتمام کرتے ہیں۔

وہ 2009ء کے ان دنوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جب فٹبال ہاؤس میں فٹبال کی سرگرمیاں تھم گئی تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں لیاری میں گینگ وار اپنے عروج پر تھی۔ یہاں پر صورتحال بہت ہی خراب تھی اور ایک دن ہمیں گینگ کے لیے کام کرنے والوں نے بندوق کے زور پر عمارت سے باہر نکال دیا تھا۔ انہوں نے عمارت پر قبضہ کرلیا اور ہم سے ہمارا فٹبال ہاؤس لے لیا۔ اور پھر یہ عمارت سندھ کے فٹبال ہیڈکوارٹرز کے بجائے لیاری گینگ ہیڈکوارٹرز بن گئی!

ناصر کریم نے بتایا کہ '2015ء میں جب لیاری آپریشن کے ذریعے علاقے کو مسلح گروہوں سے پاک کیا گیا تب میں نے اس عمارت کو خالی اور اجاڑ حالت میں پایا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عمارت کو کافی زیادہ نقصان پہنچایا تھا اور ہمیں اس کی ہنگامی مرمت کے لیے اپنی جیبوں سے پیسے دینے پڑے۔

'ہم نے پرانے ریکارڈز کے لیے مختص کمرے کو اپنی اصل حالت میں ہی پایا۔ اس سے پہلے کہ مجھے عمارت سے دھکے مار کر باہر نکالا جاتا میں نے جلدی جلدی اس کمرے کو بند کردیا اور میں حیران ہوں کہ انہوں نے اس کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر جانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اب ہم سارے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کر رہے ہیں۔ ہم یہاں فٹبال میوزیم اور لائبریری بھی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فٹبالروں کی اگلی نسل لیاری کی فٹبال سے بھرپور تاریخ کو جانے اور اس سے فائدہ حاصل کرے۔'

2017ء- 2018ء میں فٹبال سپر لیگ کی صورت میں قریب 100 دنوں تک لیاری میں فٹبال کا میلہ سجا رہا، جس میں حصہ لینے والی 128 ٹیموں نے لیاری کے مختلف میدانوں پر فٹبال میچ کھیلے۔

لیگ کے اختتام پر ٹاپ 16 ٹیموں کے کپتانوں کی تصاویر فٹبال ہاؤس کے سائن بورڈ کی زینت بنیں۔ اب چونکہ نارملائزیشن کمیٹی فٹبال سے جڑے معاملات دیکھ رہی ہے اس لیے لیاری کے پسندیدہ کھیل کے حالات میں مزید بہتری آنے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ماضی کی طرح یقیناً ایک بار پھر جلد ہی اس علاقے سے نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے گا اور لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں واقع تاریخی فٹبال ہاؤس ان اچھے دنوں کا گواہ بنے گا۔


یہ مضمون 19 اپریل 2020ء میں ڈان کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں