سلیم ملک کی آئی سی سی، پی سی بی کو کرپشن کے خلاف تعاون کی پیشکش

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2020
57 سالہ دائیں بازو کے بلے باز میچ فکسنگ کے الزام میں مجرم قرار پائے تھے  فائل فوٹو:اے ایف پی
57 سالہ دائیں بازو کے بلے باز میچ فکسنگ کے الزام میں مجرم قرار پائے تھے فائل فوٹو:اے ایف پی

لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک نے 19 سال بعد میچ فکسنگ پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ جس کی وجہ سے ان پر پابندی لگی وہ اس حوالے سے تمام خفیہ راز سامنے لانے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’مجھے 19 سال پہلے اپنے کیے پر بہت افسوس ہے، میں اس سلسلے میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سے غیر مشروط تعاون کو تیار ہوں‘۔

واضح رہے کہ 57 سالہ دائیں بازو کے بلے باز میچ فکسنگ کے الزام میں مجرم قرار پائے تھے اور سال 2000 میں ایک اسکینڈل میں عدالتی تفتیش کے بعد ان پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی تھی۔

آسٹریلیا کے 3 کھلاڑیوں شین وارن ، مارک وا اور ٹم مے نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 95-1994 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران کم کارکردگی دکھانے کے لیے انہیں رشوت کی پیش کش کی تھی۔

مزید پڑھیں: مجھے دوسرا موقع ملنا چاہیے: سلیم ملک

سلیم ملک کی پابندی کو ایک پاکستانی عدالت نے سن 2008 میں ختم کیا تھا لیکن اس فیصلے کی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) یا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے توثیق نہیں کی تھی۔

1982 سے 1999 تک کیریئر میں 103 ٹیسٹ اور 283 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے سابق مڈل آرڈر بلے باز نے کہا کہ وہ میچ فکسنگ اسکینڈل کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کے لیے آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے ساتھ بھی تعاون کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے قوانین کے تحت، وہ اس بات کے بھی مستحق ہیں کہ ان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر سمجھا جائے کیونکہ انہوں نے بہت پہلے اس غلطی کی وجہ سے بہت زیادہ مصائب کا سامنا کیا ہے اور 19 سال تک کھیل سے دور رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جس کی شروعات میں نے 8 سال کی عمر میں کی تھی، میں نے زندگی بھر یہ کھیل کھیلا ہے، یہی میری روزی روٹی ہے لہٰذا میں اپیل کرتا ہوں کہ انسانی حقوق کے قوانین کے تحت مجھ سے (میچ فکسنگ میں قصوروار پائے گئے) دوسرے کھلاڑیوں کے جیسا سلوک کیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’آئی سی سی اور پی سی بی کے جو بھی (متعلقہ) قوانین موجود ہیں، میں ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں‘۔

واضح رہے کہ پاکستان کے 1992 ورلڈ کپ جیتنے والے اسکواڈ کے رکن سلیم ملک نے 2012 میں قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی نوکری کے لیے درخواست دی تھی اور وہ 2008 میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہیڈ کوچنگ کی نوکری کے لیے بھی کوششیں کر رہے تھے تاہم آئی سی سی کی جانب سے ان پر سے پابندی ہٹانے کے فیصلے کی توثیق نہ ہونے پر ان دونوں مواقع پر انہیں نظر انداز کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میچ یا اسپاٹ فکسنگ کے مجرم دیگر کھلاڑیوں کو کھیل میں واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے اور موجودہ حالات میں وہ اپنے کرکٹ کیریئر کا دوبارہ آغاز کرنے کے دوسرے موقع کے مستحق ہیں تاہم اس بار وہ کوچ کے کردار میں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سلیم ملک کو بھی دوسرا موقع ملنا چاہیے؟

سلیم ملک کے مطابق ’محمد عامر، سلمان بٹ، محمد آصف اور شرجیل خان کھیل رہے ہیں لیکن مجھے نظرانداز کیا گیا ہے اور مجھے کھلاڑیوں کا کوچ نہیں بنایا جارہا ہے‘۔

یاد رہے کہ 2010 میں اسپاٹ فکسنگ کیس میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر 5سال کے لیے پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ شرجیل خان کو بھی اسی طرح کی سزا 2017 میں دی گئی تھی۔

دریں اثنا سلیم ملک کے ویڈیو بیان پر ردعمل دیتے ہوئے پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے کہا کہ یہ سن کر اچھا لگا کہ سلیم ملک نے انہیں اور آئی سی سی کو مکمل اور غیر مشروط تعاون کی پیش کش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’واپسی کے خواہاں کھلاڑیوں کے لیے انسداد بدعنوانی قوانین کے تحت اپنے بورڈ کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہی واحد راستہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے سلیم ملک کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے جو ہم نے ان سے اپریل 2011 میں لندن میں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں پوچھے تھے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں